معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر (بھلائی) انسان کی فطری عادت ہے، اور شر (برائی) نفس کی خصومت ہے، اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین میں بصیرت و تفقہ عطاء کرتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 221]
وضاحت: ۱؎: انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خیر اور بھلائی کی عادت ڈالے، اور شر و فساد سے اپنے آپ کو طاقت بھر دور رکھے، اور فقہ سے مراد کتاب و سنت کا فہم ہے، اختلافی مسائل میں دلائل کے ساتھ متعارض احادیث میں تطبیق دے، اور دلائل کی بناء پر راجح اور مرجوح کو الگ الگ کرے، اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرائے رجال، اور قیل و قال پر مقدم رکھے، اور مسئلہ میں دلائل شرعیہ کا تابع رہے، اور کتاب و سنت پر مکمل طور پر عمل کرے، محدثین سے مروی ہے «فقه الرجل بصيرته بالحديث» یعنی آدمی کی فقہ یہ ہے کہ حدیث میں بصیرت حاصل کرے، اور متعارف فقہ میں سے ہر مسئلہ کو کتاب و سنت پر پیش کرے، جو دین کے موافق ہو اسے قبول کرے، اور جو دین کے خلاف ہو اس کو دور کرے، یہی دین کا طریقہ ہے، لیکن سنت سے نابلد اور دینی بصیرت سے غافل لوگوں پر یہ بہت شاق گزرتا ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث221
اردو حاشہ: (1) نیکی عادت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدھا راستہ انسان کی فطرت ہے۔ ایک فطرت سلیم کا مالک نیکی کے راستے پر چلنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا، البتہ غلط ماحول کی وجہ سے یا شیطان کے وسوسہ و مکر کی وجہ سے بعض اوقات انسان برائی کی راہ پر چل پڑتا ہے اس کے باوجود اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی انسان گناہ کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی طرف آتا ہے، اسے ایک روحانی خوشی اور دلی اطمینان کی وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جو گناہ کی بظاہر خوبصورت زندگی میں حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اسلام کی تعلیمات اسی فطرت سلیم کے مطابق ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا فِطرَتَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ النّاسَ عَلَيها لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذلِكَ الدّينُ القَيِّمُ)(الروم: 30) یعنی ”اللہ کا قانون و دین وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں، یہی مضبوط دین ہے۔“
(2) گناہ ایک جھگڑا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا اپنے اندر ایک کشمکش محسوس کرتا ہے۔ نفس اَمًارہ اسے گناہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور توبہ سے روکتا ہے جب کہ ضمیر اسے گناہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگرچہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا بظاہر وہ کام کر رہا ہوتا ہے جو اس کا جی چاہتا ہے اس کے باوجود اسے خوشی حاصل نہیں ہوتی، دنیا کی دولت اسے اطمینان قلب مہیا کرنے سے قاصر رہتی ہے، سوائے اس کے کہ اس کا ضمیر بالکل مردہ ہو جائے اور اس کی فطرت مسخ ہو جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 221