الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
33. بَابُ : عِدَّةِ أُمِّ الْوَلَدِ
33. باب: ام ولد کی عدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2083
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ:" لَا تُفْسِدُوا عَلَيْنَا سُنَّةَ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَّةُ أُمِّ الْوَلَدِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم پر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہ بگاڑو، ام ولد کی عدت چار ماہ دس دن ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2083]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 48 (2308)، (تحفة الأشراف: 10743)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 203) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ام ولد وہ لونڈی جو اپنے مالک کا بچہ جنے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ام ولد کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے، گویا یہ عدت میں مثل آزاد کے ہے، اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن ابن ماجهعدة أم الولد أربعة أشهر وعشرا
   بلوغ المرام0

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2083 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2083  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام ولد سے مراد وہ لونڈی ہے جس سے اس کے مالک کی اولاد پیدا ہو۔

(2)
ام ولد کے بارے میں حضرت عمر کا فرمان ہے:
جو لونڈی اپنے آقا سے اولاد حنے تو وہ اسے نہ بیچے‘ نہ ہبہ کرے‘ نہ اسے وراثت میں کسی کے حوالے کرے‘ (زندگی میں)
اس سے فائدہ اٹھاتا رہے‘ جب مر جائے تو وہ عورت آزاد ہے۔ (موطأ إمام مالک، العتق والولاء، باب عتق أمھات الأولاد......،: 2/ 291)

(3)
چونکہ ام ولد اپنے مالک کی وفات کی وجہ سے آزاد ہو جاتی ہے، اس لیے اس کی عدت آزاد عورت والی ہے۔
ام ولد عدت کی بابت اختلاف ہے، دیکھیے: (المغني لابن قدامة: 11/ 262، 264)

(4)
  یہ روایت بعض کے نزدیک صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2083   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 954  
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہم پر خلط ملط نہ کرو کہ جب ام ولد کا سردار وفات پا جائے تو اس کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے۔ اس روایت کو احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور دارقطنی نے اسے انقطاع سے معلول کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 954»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في عدة أم الولد، حديث:2308، وابن ماجه، الطلاق، حديث:2083، وأحمد:4 /203، والحاكم:2 /209 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، والدارقطني:3 /309 وقال: "هو مرسل لأن قبيصة لم يسمع من عمرو" وتبعه البيهقي:7 /448.»
تشریح:
1. اس روایت میں ام ولد کی عدت کا بیان ہے مگر یہ روایت منقطع ہے کیونکہ اسے قَبِیصہ بن ذُؤَیب‘ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا سماع حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔
2. امام اوزاعی اور اہل ظاہر ام ولد کی عدت چار ماہ دس دن کہتے ہیں‘ مگر امام شافعی‘ امام احمد اور مالک رحمہم اللہ کے نزدیک اس کی عدت ایک حیض ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عدت تین حیض ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہم کہتے ہیں کہ اس کی عدت صرف ایک حیض اس لیے ہے کہ نہ تو وہ زوجہ ہے اور نہ مطلقہ۔
اسے تو صرف استبرائے رحم کی ضرورت ہے اور وہ ایک ہی حیض سے ہو جاتا ہے۔
3.اس حدیث کو بعض محققین نے صحیح بھی قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 954