ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جو ان کے دلوں میں وسوسے آتے ہیں معاف کر دیا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا نہ بولیں، اور اسی طرح ان کاموں سے بھی انہیں معاف کر دیا ہے جس پر وہ مجبور کر دیئے جائیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2044]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظرحدیث رقم: 2040 (صحیح)» (حدیث میں «وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» کا لفظ شاذ ہے، لیکن اگلی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں یہ لفظ ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: شیخ عبدالحق محدث رحمہ اللہ لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اسی حدیث کی رو سے یہ حکم دیا ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس کی طلاق اور عتاق (آزادی) نہ پڑے گی اور ہمارے مذہب (حنفی) میں قیاس کی رو سے ہزل پر طلاق اور عتاق دونوں پڑ جائے گی تو جو عقد ہزل میں نافذ ہو جاتا ہے۔ وہ اکراہ (زبردستی) میں بھی نافذ ہو جائے گا، مولانا وحید الزمان صاحب اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ حنفیہ نے قیاس کو حدیث پر مقدم رکھا، اور نہ صرف اس حدیث پر بلکہ ابوذر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث پر بھی جو اوپر گزریں، اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حنفیہ نے جو اصول بنائے ہیں کہ خبر واحد، مرسل حدیث اور ضعیف حدیث بلکہ صحابی کا قول بھی قیاس پر مقدم ہے، یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں، سیکڑوں مسائل میں انہوں نے قیاس کو احادیث صحیحہ پر مقدم رکھا ہے، اور یقیناً یہ متاخرین حنفیہ کا فعل ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس سے بالکل بری تھے، جیسے انہوں نے نبیذ سے وضو اور نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جانے میں ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کر دیا ہے، تو بھلا صحیح حدیث کے خلاف وہ کیونکر اپنا قیاس قائم رکھتے، اور محدثین نے باسناد مسلسل امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حدیث پر عمل لازم ہے، اور میرا قول حدیث کی وجہ سے چھوڑ دینا، امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ جب تک لوگ علم حدیث حاصل کرتے رہیں گے اچھے رہیں گے، اور جب حدیث چھوڑ دیں گے تو بگڑ جائیں گے، لیکن افسوس ہے کہ حنفیہ نے اس باب میں اپنے امام کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله وما استكرهوا عليه فإنه شاذ وإنما صح في حديث ابن عباس
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 63
´وسوسہ قابل مواخذہ نہیں` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لم تعْمل بِهِ أَو تَتَكَلَّم» . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے سینے میں جو وسوسے پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے اس کی پکڑ نہیں کرے گا۔ جب تک کہ ان وسوسوں کے موافق عمل نہ کرے یا زبان سے کلام نہ کرے۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 63]
تخریج: [صحيح بخاري 2528]، [صحيح مسلم 331، 332]
فقہ الحدیث: ➊ طیبی شارح مشکوٰۃ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وسوسے کی دو قسمیں ہیں: اول: جو بغیر اختیار کے خود بخود دل میں پیدا ہو جاتا ہے، جس میں آدمی کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ یہ وسوسہ تمام شریعتوں میں قابل معافی ہے۔ دوم: اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعت محمدیہ میں اس وقت تک قابل معافی ہے، جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کر دے۔ ➋ امت محمدیہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 22
´دلوں میں آنے والے خیالات پر مواخذہ نہیں` ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔““[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 22]
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں جو مختلف خیالات آتے ہیں، ان خیالات پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ: ارشاد باری تعالیٰ: «لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفسًا»[ البقرة: 286 ] پھر یہ خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور اگر خیالات گندے کاموں کی طرف دعوت دیں تو ان خیالات کو ”وساوس“ کہتے ہیں۔ اور اگر نیکی کی طرف دعوت دیں تو ”الہامات“ ہیں۔ لیکن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ کا عزم کرتا ہے اور مکمل کوشش کرتا ہے اور اس میں ناکام ہو جائے تو وہ عنداللہ مجرم ہو گا۔ جیسا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔“ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول (کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی خواہش رکھتا تھا۔“[صحيح بخاري، رقم: 8083] بعض اوقات انسان مجبوراً اپنی زبان سے ایسے کلمات کہتا ہے لیکن دل سے انکا اقرار نہیں کرتا تو ایسے انسان پر بھی مواخذہ نہیں ہےجیسا کہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: «مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعدِ اِيمانِه اِلامَن اُكرِهَ وَ قَلبُه’مُطمَىن بِالاِيمَانِ»[النحل: 106] ”جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔“ اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اظہار زبان سے نہ بھی کیا جائے تو اس کی جزا و سزا ملتی ہے۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے محبت کرنا، اللہ ذوالجلال کے شعار کا احترام کرنا ثواب ہے اور اسی طرح برے کام سے نفرت کرنا بھی ثواب ہے۔ ان کا تعلق دل سے ہی ہے۔ اگر انسان اظہار نہ بھی کرے تو عنداللہ مجور ہو گا۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 22
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 921
´طلاق کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل کے وسوسہ (پر گرفت و مؤاخذہ) سے درگزر فرما دیا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کوئی زبان سے نہ کہے اور عمل نہ کرے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 921»
تخریج: «أخرجه البخاري، الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق...، حديث:5269، ومسلم، الإيمان، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر، حديث:127.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسے قابل مؤاخذہ نہیں‘ مثلاً: کسی کے دل میں عورت کو طلاق دینے کا خیال آیا یا کسی لڑکی سے نکاح کا ارادہ کیا تو محض خیالات اور ارادے سے یہ باتیں واقع نہیں ہو جاتیں‘ البتہ اگر انسان دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کا عملاً اظہار کرے یا زبان سے اقرار کرے تو یہ قابلِ مؤاخذہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 921
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3463
´اپنے جی میں طلاق دینے والے کی طلاق کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، (عبدالرحمٰن کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں اور اس پہ عمل نہ کریں۔“[سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3463]
اردو حاشہ: اس سے مراد محض شیطانی وسوسے اور گناہ کے خیالات ہیں جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3463
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3464
´اپنے جی میں طلاق دینے والے کی طلاق کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے ہماری امت کے وسوسوں اور جی میں گزرنے والے خیالات سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں۔“[سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3464]
اردو حاشہ: (1) جن باتوں کا تعلق ہی دل سے ہے‘ مثلاً اعتقادات‘ ایمان اور کفر وغیرہ‘ ان پر مؤاخذہ یا ثواب ہوگا‘ خواہ وہ دل ہی میں رہیں۔ یہاں صرف وسوسے اور خیالات مراد ہیں جو وقتی طور پر دل میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں‘ نہ کہ ایمان وکفر ونفاق وغیرہ جو دل میں جاگزیں ہوتے ہیں۔ (2) یہ امت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ باقی امتوں پر اس کا بھی محاسبہ ہوتا تھا۔ اس سے امت محمدیہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلاَةُ وَالتَّسْلِیْمُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3464
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2209
´دل میں طلاق کے خیال آنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2209]
فوائد ومسائل: محض خیال کرنے سے یا دل میں پیچ وتاب کھاتے ہوئے طلاق دینا جبکہ زبان سے کچھ نہ بولا ہو طلاق نہیں ہوتی۔ لیکن اپنے ان جذبات وخیالات کو کسی واضح تحریر میں نقل کریا ہو تو طلاق ہوجائے گی کیونکہ ہاتھ کا لکھنا عمل ہے۔ خواہ بیوی کو تحریر دے یا دیے بغیر ہی ضائع کردے تو طلاق ہوجائے گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2209
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2040
´دل میں طلاق دینے اور زبان سے کچھ نہ کہنے کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2040]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔ یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔
(2) جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا، مثلاً: ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔ ارشاد نبوی ہے: ”جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔“ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول(کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔“(صحیح البخاري، الفتن، باب إذا التقی المسلمان بسیفیهما، حدیث: 7083)
(3) بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت، نفرت، خوف وغیرہ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً: اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔ ایمان، کفر، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2040
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1183
´جو شخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے تو کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1183]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ دل میں پیداہونے والے خیالات اورگزرنے والے وسوسے مؤاخذہ کے قابل گرفت نہیں، مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کوطلاق دینے کاخیال آئے تومحض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1183
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1207
1207- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر کیا ہے، جوان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، جب تک وہ ا س پر عمل نہیں کرتے یا اس کے بارے میں بات چیت نہیں کرتے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1207]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دل کے برے وسوسے قابل گرفت نہیں ہیں، جبکہ نیکی کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ جو شخص کسی اچھے کام کی نیت کر لے، اس کو نیت کرنے سے ثواب مل جائے گا، اسلام نیکی کی دعوت دیتا ہے، اور امت مسلمہ کو نیکی کے کاموں اور نیکی کے ارادوں کی رغبت دلاتا ہے۔ مومن کا سینہ نیکی اور تقویٰ سے سرشار ہوتا ہے، گناہ کا کوئی بھی خیال آ جائے تو جلد ہی دفع ہو جا تا ہے، لیکن گناہگار کا سینہ فسق و فجور سے بھرا ہوتا ہے، جو اسے نیکی کا کام کرنے کی فرصت نہیں دیتا، اللہ رب العالمین دل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے دل کو پاک و صاف رکھنا چاہیے، لوگوں نے اپنے چہرے اور کپڑوں کو تو صاف رکھا لیکن دل صاف نہ کر سکے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1205
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 332
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امّت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ اپنے نفس سے کرے، جب تک اس پر عمل یا کلام نہ کرے۔“ امام صاحبؒ اپنے دوسرے اساتذہ سے بھی مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:332]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) تَجَاوَزَ: درگزر کرنا، معاف کر دینا۔ جَوَاز: (تساہل و چشم پوشی) سے ماخوذ ہے۔ (2) حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا: نفس کے اعراب کے بارے میں علماء کے دو خیال ہیں: (1) نفس، مفعول بہ اور منصوب ہے اس صورت میں معنی ہو گا، جو وہ اپنے دل سے بات کرے، مشہور اور زیادہ ظاہر یہی قول ہے اور قاضی عیاض نے حدیث "إِنَّ أَحَدَنَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ" ”ہم میں سے ایک اپنے نفس سے بات کرتا ہے۔ “ سے اس کی تائید کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا زیادہ اظہار اسی سے ہوتا ہے۔ (2) نفس، فاعل اور مرفوع ہے، معنی ”اس کے دل میں بات آتی ہے۔ “ امام طحاویؒ نے ﴿نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ﴾ سے اس کی تائید کی ہے اور بخاریؒ کی حدیث بھی ہے۔ «مَاوَسْوَسَتْ بِهِ صَدْرُهَا» لیکن ظاہر ہے، حدیث نفس اور وسوسہ میں فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میں سے درگزر فرمایا ہے۔ فوائد ومسائل: خیالات وتصورات کی دو قسمیں ہیں: جو دل میں آتے ہیں لیکن وہ اس میں جمتے نہیں ہیں اور گزر جاتے ہیں، انسان ان پر غور وفکر نہیں کرتا اور نہ ان کا عزم وقصد یا ارادہ کرتا ہے، ان کو وساوس اور خطرات کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسرے قسم کے خیالات وہ ہیں جو انسان خود دل میں لاتا ہے، ان پر غور وفکر کرتا ہے اور بعض دفعہ ان کا عزم وقصد اور ارادہ بھی کر لیتا ہے، ان کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن کا تعلق زبان یا اعضاء جوارح سے ہے، جیسے چغلی، غیبت، بہتان یا چوری، زنا اور شراب پینا۔ دوسرے وہ جن کو تعلق قلب ودل سے ہے، جیسے حسد، بغض وکینہ، کبر، نخوت، حرص وطمع وغیرہا، وساوس اور خطرات پر مواخذہ نہیں ہے۔ اسی طرح اعضاء جوارح سے تعلق رکھنے والے اعمال کا دل میں قصد وارادہ کرنا یا عزم کرنا اس پر بھی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی امت محمدیہ کا شرف ہے، پہلی امتوں کا اس پر مواخذہ تھا، لیکن جن چیزوں کا تعلق محض دل سے ہے یعنی وہ قالبی اعمال نہیں ہے قلبی اعمال ہیں، ان کے ھم وعزم اورقصد وارادہ پر مواخذہ ہوگا، کیونکہ وہ عمل میں آچکے ہیں، اس لیے مطلق یہ کہہ دینا کہ جو خیال میں جم گیا اور مضبوط ہوگیا یا اس کا عزم وقصد اور ارادہ کر لیا تو اس پر مواخذہ ہوگا، درست نہیں ہے، کیونکہ آگے آرہا ہے، کہ ایک انسان برائی کا ارادہ کر لیتا ہے لیکن اللہ کے خوف وڈر سے اس سے باز آجاتا ہے تو اس کا اجر وثواب ہوگا اگر محض ارادہ پر مواخذہ ہے تو اس پر گناہ ہونا چاہیے تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 332
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2528
2528. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”نے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ معاملات معاف کردیے ہیں جو ان کے دلوں میں وسوسے کے طور پرآئیں جب تک وہ (امتی) ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2528]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے باب کا مطلب اس طرح نکالا کہ جب وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ نہ ہوا تو جو چیز خالی زبان سے بھول چوک کر نکل جائیں ان پر بطریق اولیٰ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ یا وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ دل پر آن کر گزر جاتا ہے جمتا نہیں۔ اسی طرح جو کلام زبان سے گزر جائے قصد نہ کیا جائے تو اس کا حکم بھی وسوسے کی طرح ہوگا کیوں کہ دل اور زبان دونوں انسانی اعضاءہیں اور دونوں کا حکم ایک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2528
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5269
5269. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے میری امت سے ان خیالات کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں جب تک ان کے مطابق عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔“ قتادہ نے کہا: اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5269]
حدیث حاشیہ: ہوا یہ کہ ایک دیوانی عورت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آئے، اس کو زنا سے حمل رہ گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا ألم تعلم أن القلم رفع عن ثلاثة الخ، جس پر ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لولا علي لھلك عمر اللہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے نفسی و حق پژوہی۔ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور گراں مہر باندھنے سے منع کر رہے تھے، ایک عورت نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی (وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا) (النساء: 20) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر فرمایا کہ عمر سے بڑھ کر سب لوگ سمجھدار ہیں، یہاں تک کہ عورتیں بچے بھی عمر سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ کوئی حق شناسی اور انصاف پروری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سیکھے جہاں کسی نے کوئی معقول بات کہی، یا قرآن یا حدیث سے کوئی معقول بات کہی قرآن یا حدیث سے سند پیش کی انہوں نے فوراً مان لی، سر تسلیم جھکا دیا، کبھی اپنی بات کی پچ نہ کی نہ اپنے علم و فضل پرغرہ کیا اور ہمارے زمانہ میں تو مقلدین بے انصاف کا یہ حال ہے کہ ان کو سینکڑوں احادیث اور آیتیں سناؤ جب بھی نہیں مانتے، اپنے امام کی پچ کئے جاتے ہیں اور قرآن و حدیث کی تاویل کرتے ہیں۔ کہو اس کی ضرورت ہی کیا آن پڑی ہے، کیا یہ ائمہ کرام پیغمبروں کی طرح معصوم تھے کہ ان کا ہر قول واجب التسلیم ہو۔ پھرہم امام ہی کے قول کی تاویل کیوں نہ کریں کہ شاید ان کا مطلب دوسرا ہوگا یا ان کو یہ حدیث نہ پہنچی (وحیدی) اماموں سے غلطی ممکن ہے اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرے وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے، ان کا احترام اپنی جگہ پر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5269
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6664
6664. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے میری امت سے وسوسے اور ان کے دل کی باتوں سے درگزر فرمایا ہے جب تک وہ ان پر عمل پیرا نہ ہوں یا انہیں زبان پر نہ لے آئیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6664]
حدیث حاشیہ: قلبی وساوس جو یونہی صادر ہو کر خود ہی فراموش ہوتے رہتےہیں۔ اللہ پاک نے ان سب کو معاف کیا ہے ایسے وساوس کا آنا بھی فطرت انسانی میں داخل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6664
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2528
2528. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”نے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ معاملات معاف کردیے ہیں جو ان کے دلوں میں وسوسے کے طور پرآئیں جب تک وہ (امتی) ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2528]
حدیث حاشیہ: (1) انسان کے دل میں جو خیالات آتے ہیں اگر وہ برائی پر آمادہ کریں تو انہیں وسوسہ کہا جاتا ہے اور اگر کار خیر کی دعوت دیں تو یہ الہام ہے۔ اس امت کی خصوصیت ہے کہ ان کے قلوب پر آنے والے خطرات معاف ہیں جب تک وہ دل میں پختہ نہ ہوں، یعنی ان پر عمل نہ کیا جائے یا انہیں زبان پر نہ لایا جائے۔ اگر دل میں قرار پکڑ لیں جیسا کہ حسد وغیرہ میں ہوتا ہے تو اس پر مؤاخذہ ہو گا، اسی وجہ سے هم (ارادہ) اور عزم میں فرق کیا جاتا ہے کیونکہ هم (ارادہ) وہ ہے جو دل میں آئے اور گزر جائے اور عزم وہ ہے جو دل میں آئے اور ٹھہر جائے۔ (2) اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ جب وسوسے اور دل کے خیال پر پکڑ نہیں تو جو چیز خالی زبان سے ازراہ بھول چوک نکل جائے تو اس پر بطریق اولیٰ مؤاخذہ نہیں ہو گا یا وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ اس لیے نہیں کہ وہ دل میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے اس طرح جو کلام زبان پر آئے اور گزر جائے اس کا کوئی ارادہ یا نیت نہ ہو اس کا حکم بھی وسوسے کی طرح ہو گا کیونکہ دل اور زبان دونوں انسانی اعضاء ہیں اور دونوں کا حکم ایک ہے، اس لیے اگر بھول چوک اور نیت کے بغیر طلاق اور عتاق کا لفظ زبان پر آ جائے تو قانونی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2528
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5269
5269. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے میری امت سے ان خیالات کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں جب تک ان کے مطابق عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔“ قتادہ نے کہا: اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5269]
حدیث حاشیہ: (1) اگر کسی کے دل میں طلاق دینے کا خیال پیدا ہوا تو محض خیال و وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔ اس قسم کی طلاق کو خیالی طلاق کہتے ہیں۔ اس قسم کی طلاق واقع ہونے کی دوشرطیں ہیں: ٭دل کے خیالات کو کاغذ پر تحریر کر دے، یعنی خیالات کو عمل میں لے آئے۔ ٭دل کے وسوسے کو زبان پر لے آئے، یعنی انھیں کلام کی شکل دے دے۔ اگر طلاق کو ہوا یا پانی پر لکھا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ ہوا یا پانی پر لکھنے کی حیثیت بھی خیالات و وساوس کی ہے۔ (2) حدیث النفس، وسوسے کو کہتے ہیں، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوتا، البتہ ابن سیرین اس قسم کی طلاق واقع ہونے کے قائل ہیں۔ مذکورہ حدیث سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے۔ (فتح الباري: 488/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5269
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6664
6664. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے میری امت سے وسوسے اور ان کے دل کی باتوں سے درگزر فرمایا ہے جب تک وہ ان پر عمل پیرا نہ ہوں یا انہیں زبان پر نہ لے آئیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6664]
حدیث حاشیہ: کسی چیز کے وجود ذہنی کا کوئی اعتبار نہیں۔ اعتبار صرف وجود قولی کا ہے جس کا تعلق گفتار سے ہے یا وجود عملی کا اعتبار ہے جس کا تعلق کردار سے ہے۔ غلطی سے یا بھول کر قسم توڑنا شرعاً اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں، لہذا ایسی قسم پر کوئی گناہ یا کفارہ نہیں ہے۔ ہاں، گناہ پر اصرار یہ وسوسہ یا دلی خیال نہیں بلکہ دل کا فعل ہے، اس اصرار پر ضرور مؤاخذہ ہو گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6664