ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے شوال میں شادی کی اور ان سے شوال ہی میں ملن بھی کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1991]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3282، 18230، ومصباح الزجاجة: 706) (صحیح)» (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سند میں ارسال ہے، عبدالملک بن الحارث بن ہشام یہ عبدالملک بن ابی بکر بن الحارث بن ہشام المخزومی ہیں جیسا کہ طبقات ابن سعد میں ہے، 8/94-95، اور یہ ثقہ تابعی ہیں، اسی طرح ابوبکر ثقہ تابعی ہیں، اور یہ حدیث ابوبکر کی ہے، نہ کہ ان کے دادا حارث بن ہشام کی، اور عبداللہ بن ابی بکر یہ ابن محمد عمرو بن حزم الانصاری ہیں، جو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، اور ان سے ابن اسحاق روایت کرتے ہیں، ابوبکر کی وفات 120 ھ میں ہوئی، اور ان کے شیخ عبدالملک کی وفات 125 ھ میں ہوئی، اس لیے یہ حدیث ابوبکر عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام سے مرسلاً روایت ہے، ان کے دادا حارث بن ہشام سے نہیں، اس میں امام مزی وغیرہ کو وہم ہوا ہے، نیز سند میں ابن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن ابن سعد کی روایت میں تحدیث کی تصریح ہے، اور موطا امام مالک میں (2/ 650) میں ثابت ہے کہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے اس حدیث کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے لیا ہے، اس لیے یہ حدیث صحیح ہے، اسی وجہ سے شیخ البانی نے تفصیلی تحقیق کے بعد اس حدیث کو الضعیفہ (4350) سے منتقل کرنے کی بات کہی ہے،، فالحدیث صحیح ینقل الی الکتاب الأخر“۔ 199
وضاحت: ۱؎: شوال کا مہینہ عید اور خوشی کا مہینہ ہے، اس وجہ سے اس میں نکاح کرنا بہتر ہے، عہد جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خیال کو غلط ٹھہرایا اور اس مہینہ میں نکاح کیا، اور دخول بھی اسی مہینے میں کیا، گو ہر ماہ میں نکاح جائز ہے مگر جس مہینہ کو عوام بغیر دلیل شرعی کے عورتوں کی تقلید سے یا کافروں اور فاسقوں کی تقلید سے منحوس سمجھیں اس میں نکاح کرنا چاہئے، تاکہ عوام کے دل سے یہ غلط عقیدہ نکل جائے، شرع کی رو سے شوال، محرم یا صفر کا مہینہ کوئی منحوس نہیں ہے، اس لیے بے کھٹکے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہئے۔
قال الشيخ الألباني: مرسل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبدالملك ھو ابن أبي بكر بن عبد الرحمٰن بن الحارث المخزومي،وأبوه ثقة تابعي فالحديث مرسل وانظرالضعيفة (9/ 336-347 ح 4350) وأما ابن إسحاق فصرح بالسماع عند ابن سعد (8/ 95) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 450
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1991
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: اس حدیث کی سند کا آخری حصہ یوں ذکر ہوا ہے: (عن عبدالملک بن الحارث بن ہشام عن أبیه ان النبي ﷺ---) انہوں نے عبدالملک بن حارث بن هشام سے انہوں نے اپنے والد سے رایت کیا کہ نبی ﷺ نے۔ ۔ ۔“ اس پر البانی رحمہ اللہ نے ضعیف سنن ابن ماجہ میں نوٹ دیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: (و أبو الملک هو أبو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن هشام المخزومی) ”عبدالملک کے والد ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی ہیں۔“ زہیر شادیش (کتاب کے ناشر) نے حاشہ لکھا ہے (ولکن أشکل علیب ماکتبه أستاذنا ناصر الدین من أن عبدالرحمن بن الحارث له کنیتان: أبو الملک وأبو بکر) ”علامہ ناصرالدین البانی کی تحریر کردہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ عبدالرحمن بن حارث کی دو کنیتیں ہیں: ابوعبدالملک اور ابو بکر“ پھر شادیش صاحب نے تفصیل سے بحث کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے: ”شاید یہاں سبقت قلم ہوگئی ہے۔ واللہ اعلم میرے خیال میں یہاں زہیر شادیش کو علامہ ناصر الدین البانی کا کلام سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ البانی رحمہ الہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمن کی دوکنیتیں ہیں جن میں اسے ایک ابو عبد الملک ہے بلکہ یہ واضح فریا ہے کہ سند میں ”عبدالملک بن الحارث بن ھشام عن ابیه“ ان سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عبد الملک کے والد حضرت حارث بن ہشام ہیں جن سے وہ روایت کر رہے ہیں بلکہ عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام ہے۔ اور وہ اپنے والد ”ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام “ سے اور یہ ابو بکر بن عبدالرحمن صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر موجود نہیں ہو سکتے اس لیے یہ حدیث مرسل ہے۔ واللہ اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1991