عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انصار میں سے اپنی ایک قرابت دار خاتون کی شادی کرائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے، اور فرمایا: ”تم لوگوں نے دلہن کو رخصت کر دیا“؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ کوئی گانے والی بھی بھیجی“؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کے لوگ غزل پسند کرتے ہیں، کاش تم لوگ دلہن کے ساتھ کسی کو بھیجتے جو یہ گاتا: «أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم»”ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، اللہ تمہیں اور ہمیں سلامت رکھے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1900]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6453، ومصباح الزجاجة: 677) (حسن)» ( «غزل» کا جملہ منکر ہے، تراجع الألبانی: رقم: 465)
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چل کر مدینہ پہنچے تو انصار کی لڑکیاں راستوں پر گاتی بجاتی نکلیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کی خوشی میں کہا: «طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مٍنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا للهِ دَاع» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی تم سے محبت رکھتا ہے“ اصل یہ ہے کہ «الأعمال بالنیات»، ان لڑکیوں کو گانے سے اور کوئی غرض نہ تھی سوا اس کے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں ایسا کرتی تھیں، اور یہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں بلکہ کمسن اور نابالغ تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خوشی میں معمولی طور سے گانے بجانے لگیں، یہ مباح ہے اس کی اباحت میں کچھ شک نہیں۔ ابن القیم زاد المعاد میں لکھتے ہیں کہ لڑکیوں کے استقبال کا یہ واقع غزوہ تبوک سے واپسی کا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو الزبير عنعن وأصل الحديث في صحيح البخاري (5162) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 448
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1900
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ ورایت کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن اس کی اصل صحیح البخاری میں ہے، غالبا اسی وجہ سے دیگر محققین نے اس کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 23 ؍280، 281، و إرواء الغلیل: 7؍51، 52، رقم: 1995)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1900