عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر فتح کیا، تو آپ نے ان سے شرط لے لی کہ زمین آپ کی ہو گی، اور ہر صفراء اور بیضاء یعنی سونا و چاندی بھی آپ ہی کا ہو گا، اور آپ سے خیبر والوں نے کہا: ہم یہاں کی زمین کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں یہ دے دیجئیے، ہم اس میں کھیتی کریں گے، اور جو پھل پیدا ہو گا وہ آدھا آدھا کر لیں گے، اسی شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین ان کے حوالے کر دی، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے کھجور کا تخمینہ لگایا، جس کو اہل مدینہ «خرص» کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: اس میں اتنا اور اتنا پھل ہے، یہودی یہ سن کر بولے: اے ابن رواحہ! آپ نے تو بہت بڑھا کر بتایا، ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے میں کھجوریں اتروا کر انہیں جمع کر لیتا ہوں اور جو اندازہ میں نے کیا ہے اس کا آدھا تم کو دے دیتا ہوں، یہودی کہنے لگے: یہی حق ہے، اور اسی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں، ہم آپ کے اندازے کے مطابق حصہ لینے پر راضی ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1820]
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ یہودیوں نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو رشوت دینا اور اپنے سے ملانا چاہا کہ کھجور کا تخمینہ کمی کے ساتھ لگا دیں،لیکن وہ نہ مانے اور ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگایا، اس وقت یہودیوں نے کہا: ایسے ہی لوگوں سے آسمان اور زمین قائم ہے، سبحان اللہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ غربت و افلاس اور پریشانی و مصیبت کی حالت میں بھی سچائی اور ایمان داری کو نہیں چھوڑتے تھے، جب ہی تو اسلام کو یہ ترقی حاصل ہوئی، اور آج اسلامی عقائد و اقدار اور تعلیمات کو چھوڑ کر مسلمان دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔
افتتح خيبر اشترط عليهم أن له الأرض وكل صفراء وبيضاء يعني الذهب والفضة قال له أهل خيبر نحن أعلم بالأرض فأعطناها على أن نعملها ويكون لنا نصف الثمرة ولكم نصفها فزعم أنه أعطاهم على ذلك فلما كان حين يصرم النخل بعث إليهم ابن رواحة فحزر النخل وهو الذي يدعونه
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1820
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جو زمین جنگ کر کے کافروں سے چھین لی جائے وہ اسلامی سلطنت کی ملیکت ہوتی ہے، اسے خراجی زمین کہتے ہیں۔ اس کی پیداوار خلیفۃ المسلمین کی صواب دید کے مطابق ملک وملت کے فائدے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
(2) مزارعت، یعنی زمین کا مالک خود کاشت کرنے کے بجائے کسی کو کاشت کرنے کے لیے کہے اور پیداوار نصف نصف یا کم و بیس طے شدہ شرح سے باہم تقسیم کر لی جائے جائز ہے۔
(3) کھجور اور انگور وغیرہ کے باغوں کے بارے میں بھی یہ معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
(4) ذمیوں اور غیر مسلموں سے تجارتی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ کوئی لین دین اسلامی قوانین کے خلاف نہ ہو۔
(5) جو پھل خشک ہونے سے پہلے تازہ استعمال کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں اندازے سے مقدار کا تعین کیا جا سکتا ہے تاکہ خشک ہونے پر طے شدہ مقدار وصول کر لی جائے۔
(6) یہود نے غلط اندازے کا الزام اس لیے لگایا تھا کہ انہیں کچھ رشوت دے کر اندازہ کم کروا لیا جائے لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ نے دیانت داری کا رشتہ ترک کرنے سے انکار کر دیا۔
(7) حضرت ابن رواحہ نے قانون کے مطابق اندازہ لگا کر یہود کو اختیار دیا تھا کہ وہ پھل اتارنے کے وقت اس اندازے کا نصف، یعنی مسلمانوں کا حصہ ادا کردیں اور باقی اپنی سہولت کے مطابق اب بھی اور بعد میں بھی استعمال کرتے رہیں۔ ان کے اعتراض پر فرمایا کہ چلو ہم یہ مقدار تمہیں ادا کر دیتے ہیں اور پھل ہم خود اتار لیں گے تاکہ تمہارے کہنے کے مطابق تمہیں جو نقصان ہوتا ہے وہ ہمیں ہو جائے، مثلاً: اگر کسی کے درختوں کی پیداوار کا اندازہ سو من لگایا گیا ہے تو اصول کے مطابق یہود کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو پچاس من کھجوریں دے دیں لیکن اگر ان کا خیال ہے کہ پیداوار سو من نہیں اسی (80) من ہے تو ہم خود سارا پھل اتار کر اس سے پچاس من انہیں دےدیں گے۔ اگر ان کا اعتراض سچ ہے تو اس پیشکش کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں دس من کا فائدہ ہو جائے گا لیکن چونکہ حضرت ابن رواحہ کا اندازہ درست تھا، اس لیے یہودیوں نے یہ پیشکش قبول نہ کی اور ان سے صحیح اندازے کے مطابق حصہ وصول کیا گیا۔
(8) انصاف پر عمل کرنے میں اجتماعی فائدہ ہے جس کی وجہ سے انصاف پر کاربند رہنے والا بھی دنیا و آخرت میں فائدے میں رہتا ہے، جب کہ بے انصافی کی صورت میں مجرم بھی اس کے اثرات بد سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
(9) زراعت سے تعلق رکھنے والے دیگر مسائل کتاب التجارات اور کتاب الرھون میں ذکر کیے جائیں گے۔ إن شاء اللہ
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1820