معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ جو پیداوار بارش کے پانی سے ہو اور جو زمین کی تری سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو چرخی کے پانی سے ہو اس میں بیسواں حصہ لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: «بعل»، «عثری» اور «عذی» وہ زراعت (کھیتی) ہے جو بارش کے پانی سے سیراب کی جائے، اور «عثری» اس زراعت کو کہتے ہیں: جو خاص بارش کے پانی سے ہی بوئی جائے اور دوسرا پانی اسے نہ پہنچے، اور «بعل» وہ انگور ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر پانی تک چلی گئی ہوں اور اوپر سے پانچ چھ سال تک پانی دینے کی حاجت نہ ہو، بغیر سینچائی کے کام چل جائے، اور «سیل» کہتے ہیں وادی کے بہتے پانی کو، اور «غیل» کہتے ہیں چھوٹے «سیل» کو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1818]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11364)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزکاة 25 (2492)، مسند احمد (5/233)، سنن الدارمی/الزکاة 29 (1709) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «سیل» اور «غیل» دونوں کو اسی لئے بیان کیا کہ بعض روایتوں میں «غیل» کی جگہ «سیل» ہے، مطلب یہ ہے کہ جو زراعت «سیل»(سیلاب) کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ لازم ہو گا کیونکہ وہ بارش والے پانی کی زراعت کے مثل ہے۔