ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غلہ بارش یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوتا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ کا ہے، اور جو غلہ پانی سینچ کر پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1816]
وضاحت: ۱؎: اوپر کی حدیث میں آیا ہے کہ زکاۃ پانچ چیزوں میں ہے: گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی، اس میں مزید آسانی یہ ہے کہ یہ (عشر اور نصف عشر) دسواں اور بیسواں حصہ بھی صرف انہیں پانچ چیزوں سے لیا جائے گا جن کا ذکر اوپر ہوا، باقی تمام غلے اور میوہ جات،پھل پھول اور سبزیاں و ترکاریاں وغیرہ وغیرہ میں زکاۃ معاف ہے، اور ایک شرط یہ بھی ہے یہ پانچ چیزیں بھی پانچ وسق یعنی (۷۵۰) کلو گرام اور بقول شیخ عبداللہ البسام (۹۰۰ کلو گرام) سے کم نہ ہوں، ورنہ ان میں بھی زکاۃ معاف ہو گی، لیکن امام ابوحنیفہ اس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جملہ پیداوار میں دسواں اور بیسواں حصہ ہے کیونکہ «ماسقت السماء» کا لفظ عام ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: احادیث میں تطبیق دینا ضروری ہے اور جب غور سے دیکھو تو کوئی تعارض نہیں ہے، اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ بارش سے ہونے والی زراعت (کھیتی) میں دسواں حصہ ہے، کنویں اور نہر سے سینچی جانے والی زراعت میں بیسواں حصہ، (اس لیے کہ اس میں آدمی کو پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور محنت بھی) لیکن اس میں اموال زکاۃ اور مقدار نصاب کی تصریح نہیں ہے، یہ تصریح دوسری احادیث میں وارد ہے کہ زکاۃ صرف پانچ چیزوں میں ہے اور پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ہے تو یہ عام اسی خاص پر محمول ہو گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1816
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بارانی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں زکاۃ کی مقدار دسواں حصہ ہے۔ اگر بیس من غلہ حاصل ہو تو اس میں سے دو من زکاۃ ادا کی جائے۔ بیس من سے زیادہ ہو تو اسی شرح سے زکاۃ ادا کی جائے گی۔ قدرتی چشموں اور ندی نالوں وغیرہ سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کا بھی یہی حکم ہے۔ دریا کے قریب اگنے والی فصل کو بھی آب پاشی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی جڑیں زمین سے اپنی ضروریات کا پانی لے لیتی ہیں۔ اس میں بھی دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ کنویں اور ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی فصل میں زکاۃ کی مقدار بیسواں حصہ ہے۔ ہمارے ہاں نہری پانی کی بھی قیمت ادا کی جاتی ہے جسے آبیانہ کہتے ہیں اس لیے نہری زمین کی پیداوار میں بھی بیسواں حصہ زکاۃ ہے یعنی بیس من پر ایک من زکاۃ ہو گی۔ بیس من کی مقدار تقریباً ساڑھے سات سو کلو ہے۔ زمین کی پیداوار کی زکاۃ (عشر) کی ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع پر ہو گی۔ اگر سال میں دو فصلیں ہوں گی تو عشر بھی دو مرتبہ ادا کرنا ضروری ہو گا کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے، وہ جب بھی ہو اور جو بھی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1816
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 639
´نہر وغیرہ سے سینچائی کر کے پیدا کی گئی فصل کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس فصل کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی سے کی گئی ہو، اس میں زکاۃ دسواں حصہ ہے، اور جس کی سینچائی ڈول سے کھینچ کر کی گئی ہو تو اس میں زکاۃ دسویں حصے کا آدھا یعنی بیسواں حصہ ۱؎ ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 639]
اردو حاشہ: 1؎: اس میں بالاتفاق ”حَوَلَانُ الْحَوْل“(سال کا پورا ہونا) شرط نہیں، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہور آئمہ عشر یا نصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشر یا نصف عشر واجب نہیں ہو گا، اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں، وہ کہتے ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾[البقرة: 267](اے ایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اورزمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کر نے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خودلینے والے نہیں ہو، ہاں اگرآنکھیں بندکرلو تو، اور جان لو اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے) ﴿مِمَّا أَخْرَجْنَا﴾ میں ”ما“ کلمہء عموم ہے اس طرح ((فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ)) میں بھی”ما“ کلمہء عموم ہے۔
2؎: اور جو آگے آ رہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 639