ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1767]
سألت ربي عز وجل ثلاث خصال ، فأعطاني اثنتين ، ومنعني واحدة ، سألته أن لا يسلط على أمتي عدوا من غيرهم ، فأعطانيها . وسألته أن لا يقتل أمتي بالسنة ، فأعطانيها . وسألته أن لا يلبسهم شيعا ، فأبى على
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1767
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) افضل ایام میں نیک اعمال کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
(2) رمضان کے آخری دس دن سب کے سب فضیلت کے حامل ہیں اسی طرح شب قدر کے علاوہ آ خری عشرے کی با قی را تیں بھی رمضان کی دوسری راتوں کی نسبت افضل ہیں اس لئے ان ایام میں ذکر و تلاو ت و صدقات و خیرات جیسی نیکیو ں میں پہلے سے اضا فہ کر دینا چا ہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1767
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 569
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب (رمضان کا) آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے، رات بھر جاگتے رہتے اور اپنی بیویوں کو بھی جگاتے۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 569]
569 لغوی تشریح: «شَدَّ مِنْزَرَهُ» «مِئْزَر» کی ”میم“ کے نیچے کسرہ اور ”ہمزہ“ ساکن ہے، یعنی اپنی چادر مضبوطی سے باندھ لیتے۔ یہ دراصل کنایہ ہے کہ آپ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، اس کے لیے بڑی کوشش کرتے اور سب کچھ چھوڑ کر عبادت میں لگ جاتے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبادت کی وجہ سے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کر لیتے۔ «وَاَحْيَالَيْلَهُ» یعنی نماز وغیرہ میں ساری رات بیدار رہتے یا اس کا اکثر حصہ جاگتے۔ «وَاَيْقَظَ اَهْلَهُ» اپنے اہل خانہ کو بھی نماز و عبادت کے لیے نیند سے اٹھاتے۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 569
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1640
´شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔` مسروق کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب (رمضان کا آخری) عشرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، اور اپنے اہل و عیال کو بیدار کرتے، اور (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہو جاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1640]
1640۔ اردو حاشیہ: ➊ ”تہ بند کس لیتے“ یہ کنایہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عبادت کی پوری تیاری فرمالیتے کیونکہ لمبا اور سخت کام کرنے والا شخص پانے تہ بند کو اچھی طرح کس لیتا ہے تاکہ درمیان میں یہ ڈھیلا نہ ہو۔ ➋ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کدیے تھے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز میں اس قدر محنت و مشقت سے کام لیتے تھے۔ ہمیں بھی نفلی عبادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ ➌ رمضان المبارک کی آخری دس راتیں باقی راتوں سے زیادہ افضل ہیں۔ ➍ عبادت کے لیے گھر والوں کو بھی جگانا مستحب امر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1640
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1768
´رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ (دہا) آتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے اور کمر کس لیتے، اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1768]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کمر کسنے سے مراد عبادت اور نیکی میں مزید محنت اور کو شش ہے۔
(2) آخری عشرے کی اگر سبھی را تیں عبادت میں گزاری جائیں تو بہت بہتر ہے ورنہ طا ق راتو ں کو تو اہتمام کرنا ہی چا ہیے (3) نیکی کے کامو ں میں اہل وعیال کو بھی شریک کرنا چاہیے تا کہ وہ بھی عظیم ثواب سے محروم نہ رہیں اور اللہ کے ہا ں بلند درجات حا صل کر سکیں۔
(4 جاگنے کا مقصد عبادت ذکر اور تلاوت میں مشغول ہونا ہے بعض لوگ یہ فضیلت والی راتیں فضول بات چیت میں گزار دیتے ہیں یہ انتہائی محرومی اور بد قسمتی کی بات ہے خا ص کر مساجد میں شوروغوغا عبادت کرنے والوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے (5) بہت سی مساجد میں طاق راتو ں میں اور خا ص طور پر ستائیسویں رات کو وعظ و تقریر کا پروگرام ہوتا ہے جس کی وجہ سے رات کا کافی حصہ اسی مصروفیات میں گزر جاتا ہے اسی طرح ختم قرآن کے مو قع پر مٹھائی کی تقسیم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے اور بڑے سبھی عبادت اور تلاوت کو بھول کر مسجد کے آداب کو نذر انداز کرتے ہوئے شور شرابے میں لگے رہتے ہیں جس سے نہ صرف عبادت کرنے والو ں کو پریشانی ہوتی ہے بلکہ یہ انتہائی قیمتی وقت فضول کاموں میں ضائع ہو جاتا ہے بہتر ہے ان امور سے اجتناب کیا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1768
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:187
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ رمضان کے آخری عشرے میں رات کی عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، اس میں اپنے اہل وعیال کو بھی شریک کرنا چاہیے، اور انھیں رات کو بیدار کر دینا چاہیے۔ انسان کی نیکیوں کا موسم بہار رمضان ہے، اور رمضان میں آخری عشرے کو خاص مقام حاصل ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 187
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2787
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، گھر والوں کو جگاتے اور خوب کوشش کرتے اور کمر ہمت کس لیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2787]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے، رات کااکثر حصہ جاگ کر گزارتے اور ان راتوں میں پہلے کی نسبت زیادہ وقت عبادت میں گزارتے اور ازواج مطہرات کو بھی شب بیداری کے لیے اٹھاتے، اس طرح عبادت کے لیے خوب اہتمام کرتے، (شَدَّ مِئزَرَهُ) کا لفظ عربی اسلوب اور محاورہ کے لحاظ سے دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 1۔ عورتوں سے الگ تھلک رہنا، جیسا کہ عربی کا ایک شاعر کہتا ہے۔ ”قومٌ، إذا حاربُوا، شدّوا مآزرَهُم, دونَ النّساء، ولَوْ باتَتْ بأطْهارِ “ وہ ایسے جنگجو اوربہادر لوگ ہیں کہ لڑائی کے دنوں میں عورتوں سے تہبند باندھ لیتے ہیں یعنی الگ تھلگ رہتے ہیں اگرچہ وہ حیض ونفاس سے پاک ہوں۔ 2۔ عبادت کے لیے کمرہمت کس لینا اور عبادت کا خوب اہتمام کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2787
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2024
2024. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2024]
حدیث حاشیہ: کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ اس عشرہ میں عبادت الٰہی کے لیے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت ﷺ کا یہ سارا عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الأحزاب: 21) اے ایمان والو! اللہ کے رسول تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ان کی اقتداءکرنا تمہاری سعادت مندی ہے۔ یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الٰہی کرنا بڑا کار ثواب ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت الٰہی کرنا بہت ہی بڑا کار ثواب ہے۔ لہٰذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت ہو سکے غنیمت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2024
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2024
2024. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2024]
حدیث حاشیہ: (1) مقصد یہ ہے کہ آخری عشرہ خوب عبادت کرتے ہوئے گزارا جائے۔ رسول اللہ ﷺ اس عشرے میں اپنی بیویوں سے الگ ہو جاتے، بستر کو لپیٹ دیتے اور خوب کمر بستہ ہو کر ان راتوں کا اہتمام کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے کہ جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث: 1767) اس کوشش اور محنت کی تفصیل امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، رات کو عبادت کر کے اسے زندہ رکھتے اور اپنے اہل و عیال کو عبادت کے لیے بیدار کرتے۔ حضرت زینب بنت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے: رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے تو گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھا دیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دل کی پاکیزگی اور بالیدگی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان کا دل مخلوق سے بے پروا ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ کثرت سے کھانے، پینے، گفتگو کرنے اور سونے سے دل منتشر اور غافل ہو جاتا ہے، ماہ مبارک میں ان تمام چیزوں پر کنٹرول ہوتا ہے جو قرب الٰہی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس مبارک مہینہ کی خصوصیت ہے کہ اس میں انسان کا دل اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس ذات اقدس کے قرب خاص کو محسوس کرتا ہے۔ ویسے تو سارا مہینہ اللہ کی طرف سے خیرات و برکات اپنے جلو میں لے کر آتا ہے لیکن آخری عشرہ مخصوص انوار و تجلیات کا حامل ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ اس آخری عشرے میں عبادت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ (2) ہمارے ہاں بدقسمتی سے انفرادی عبادت کے بجائے اجتماعی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے، طاق راتوں میں تقاریر اور دروس ہوتے ہیں، سارا عشرہ بہترین ماکولات اور مشروبات کے دور کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ان چیزوں کا نشان تک نہیں ملتا۔ ہمیں اس آخری عشرے کے قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو سو کر یا کھانے پینے یا تقاریر سننے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ انفرادی عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ (3) اس عشرے میں دو عمل اللہ کے ہاں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، یعنی اعتکاف اور شب قدر کی تلاش۔ شب قدر کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس رات صرف بیدار رہنا کوئی عبادت نہیں بلکہ ذکر و فکر، نوافل، تلاوت قرآن اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے میں مصروف رہنا عبادت ہے۔ اعتکاف کے متعلق کیا شرعی ہدایات ہیں اس کے لیے امام بخاری ؒ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ایک بڑا عنوان قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات قبول فرمائے اور اپنے ہاں اجر جزیل سے نوازے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2024