الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
34. بَابٌ في صِيَامِ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
34. باب: (فی سبیل اللہ) جہاد میں روزے رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1718
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ اللَّيْثِيُّ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ زَحْزَحَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جہاد کے سفر میں ایک دن بھی روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کی مقدار میں دور کر دے گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1718]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/فضائل الجہاد 3 (1622)، سنن النسائی/الصیام 24 (2246)، (تحفة الأشراف: 12970، ومصباح الزجاجة: 618)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/300، 357) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد اللّٰه بن عبدالعزيز الليثي ضعيف واختلط بأخرة (تقريب:3444)
و قال الھيثمي: وقد ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 89/7،362/9)
والحديث السابق (الأصل: 1717) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 441

   جامع الترمذيمن صام يوما في سبيل الله زحزحه الله عن النار سبعين خريفا
   سنن ابن ماجهمن صام يوما في سبيل الله زحزح الله وجهه عن النار سبعين خريفا
   سنن النسائى الصغرىمن صام يوما في سبيل الله زحزح الله وجهه عن النار بذلك اليوم سبعين خريفا
   سنن النسائى الصغرىمن صام يوما في سبيل الله باعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1718 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1718  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فا ضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ گزشتہ روایت 1717 اس سے کفایت کرتی ہے غا لباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے اللہ کی راہ میں کا مطلب کفار سے جہاد کے وقت رکھنا ہے بشرطیکہ اس سے کمزوری پیدا ہوجا نے کا احتمال نہ ہو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کی رضا کے حصو ل کے لئے اس کے حکم کی تعمیل میں روزہ رکھا خلوص نیت سے جو کام کیا جا ئے وہ اللہ ہی کی راہ میں ہوتا ہے۔

(3)
ستر سال کے فاصلے کا مطلب یہ ہے کہ جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا فا صلہ ستر سا ل میں طے کیا جا تا ہے اس سے مرا د بہت زیا دہ دور بھی ہو سکتا ہے فا صلے کی دوری کو واضح کر نے کے لئے ستر سا ل کی مسافت سے تشبیہ دی گئی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1718   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2246  
´اللہ کی راہ میں ایک دن کے روزہ رکھنے کا ثواب، اور اس سلسلہ کی روایت میں سہیل بن ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ (یعنی جہاد یا اس کے سفر) میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اسے اس دن کے بدلے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2246]
اردو حاشہ:
حدیث میں ﴿فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ کے الفاظ ہیں ہر اس نیک عمل پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے، چونکہ قرآن مجید میں ﴿فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ سے مراد عموماً جہاد ہوتا ہے، لہٰذا ترجمہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے: جو شخص جہاد کے دوران میں روزہ رکھے۔ نیز ﴿فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ اللہ تعالیٰ کے راستے میں کے تحت طلب علم یا حج وعمرہ وغیرہ کے سفر میں روزہ رکھنا بھی آجاتا ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2246   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1622  
´دوران جہاد روزہ رکھنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جہاد کرتے وقت ایک دن کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے ستر سال کی مسافت تک جہنم سے دور کرے گا ۱؎۔ عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار میں سے ایک نے ستر برس کہا ہے اور دوسرے نے چالیس برس۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1622]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جہاد کرتے وقت روزہ رکھنے کی فضیلت کے حامل وہ مجاہدین ہیں جنہیں روزہ رکھ کر کمزوری کا احساس نہ ہو،
اورجنہیں کمزوری لاحق ہونے کا خدشہ ہو وہ اس فضیلت کے حامل نہیں ہیں۔

نوٹ:
(اگلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے،
ورنہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1622