ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1710]
وضاحت: ۱؎: شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت روزے میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے روزہ رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزے نہ رکھے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1710
اردو حاشہ: 1۔ نفلی روزے مسلسل رکھنا بھی جا ئز ہے جب کے ہر روزہ افطار کیا جا ئے یعنی وصال نہ کیا جا ئے کیو نکہ وہ ہما رے لئے ممنو ع ہے۔ دیکھیے (صحیح البخاری الصوم باب الوصال حدیث 1961 وصحیح مسلم الصیام باب النھی عن الوصال حدیث 1102) ۔ 2۔ نفلی روزے سا ل کے ہر مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں 3 مسلسل ایک مہینہ نفلی روزے رکھنا خلا ف سنت ہے 4 ما ہ شعبان میں نفلی روزوں کا اہتمام زیا دہ ہو نا چا ہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1710
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 264
´رمضان کے بعد شعبان کے روزوں کی اہمیت` «. . . 424- وبه: أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم؛ وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان، وما رأيته فى شهر أكثر صياما منه فى شعبان. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اب) افطار نہیں کریں گے اور افطار کرنا شروع کرتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ (اب) روزے نہیں رکھیں گے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 264]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1969، ومسلم 175/1156، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ رمضان کے علاوہ بھی دوسرے مہینوں میں کثرت سے روزے رکھنا مسنون اور بہت ثواب کا کام ہے۔ ➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس آدمی کے رمضان کے روزے رہ گئے ہوں اور دوسرا رمضان آ جائے تو وہ (رمضان کے بعد) ہر روزے کی قضا بھی ادا کرے گا اور ہر روزے کے بدلے میں مسکین کو کھانا بھی کھلائے گا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 253/4 و سنده قوي، رواية شعبه عن المدلسين محمولة على السماع] ◄ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو (رمضان) حاضر ہے اس کے روزے رکھے اور (بعد میں) دوسرے کے روزے رکھے اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ [سنن الدارقطني 2/197 ح2321 وسنده حسن وقال الدارقطني: ”إسناد صحيح“، السنن الكبريٰ للبيهقي 4/253] ➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ نے فرمایا: جس آدمی پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہو اور وہ روزے رکھنے پر قوت کے باوجود اگلے رمضان تک روزے نہ رکھے حتیٰ کہ رمضان آجائے تو اسے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا اور اس کے ساتھ قضا بھی رکھنا ہوگی۔ [الموطأ 1/308 ح691 ملخصاً وسنده صحيح] ➍ اگر بعض نوافل اور ثواب کے کاموں میں ہمیشگی نہ بھی ہو سکے تو جائز ہے لیکن افضل یہی ہے کہ مستقل مزاجی کے ساتھ ان امور کو سر انجام دیا جائے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 424
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2179
´اس حدیث میں محمد بن ابراہیم پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پے در پے اتنے) روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزہ رکھنا بند نہیں کریں گے، اور (پھر) اتنے دنوں تک بغیر روزے کے رہتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزے نہیں رکھیں گے، اور آپ (پورے) شعبان میں یا شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2179]
اردو حاشہ: (1) نفل روزوں کے لیے کوئی ضابطہ مقرر نہیں بلکہ یہ انسان کے نشاط پر موقوف ہے جب جی چاہے رکھے اور جتنے چاہے رکھے اور جب سستی محسوس کرے تو نہ رکھے اور جب تک چاہے ناغہ کرے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: 2359) (2) شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ رمضان المبارک کی قربت ہو سکتی ہے گویا رمضان المبارک کا پڑوسی ہونے کے لحاظ سے شعبان کو بھی خصوصی فضیلت حاصل ہوگئی۔ انبیاء وصلحاء کا جوار بھی عظیم فضیلت کا سبب ہے، دنیا میں ہو، آخرت میں یا قبر میں۔ (3)”سارا شعبان“ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: (حدیث: 2177)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2179
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2185
´اس سلسلہ میں عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے متعلق پوچھا: (تو) انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس تسلسل سے) روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزے (ہی) رکھتے رہیں گے، اور (کبھی آپ اس تسلسل سے) بغیر روزے کے رہتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ بغیر روزے کے رہیں گے، اور آپ جب سے مدینہ آئے کبھی آپ نے پورے مہینے روزے نہیں رکھے سوائے اس کے [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2185]
اردو حاشہ: ”مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد“ کیونکہ حضرت عائشہؓ کو اس کے بعد کے بارے میں ہی علم ہے، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ مدینہ منورہ آنے سے پہلے آپ مسلسل روزے رکھتے تھے بلکہ پہلے بھی آپ کی عادت مبارک یہی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2185
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 768
´پے در پے روزہ رکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب روزے رکھے، پھر آپ روزے رکھنا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے روزہ نہیں رکھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے روزے نہیں رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 768]
اردو حاشہ: 1؎: اس کی وجہ یہ تھی تاکہ کوئی اس کے وجوب کا گمان نہ کرے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 768
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2721
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے حتی کہ ہم یہ خیال کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب ناغہ نہیں کریں گے اور آپ روزے نہ رکھتے حتی کہ (مسلسل روزے نہ رکھنے سے) ہمیں خیال گزرتا اب آپﷺ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2721]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا دستور اور معمول نہ تھا، بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل بلاناغہ روزے رکھنا شروع کر دیتے اورکبھی مسلسل روزے رکھنے میں ناغہ کرتے، کبھی ایسا کرتے کہ ایک ماہ شروع میں ہفتہ اتوار اور پیر کا روزہ رکھ لیتے اور اگلے ماہ منگل بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھ لیتے ہر ہفتہ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے۔ مقصد یہ تھا کہ نفلی روزوں کے رکھنے میں تنگی اور مشکل نہ ہو بلکہ وسعت کا راستہ کھلا رہے تاکہ ہر شخص اپنے احوال وظروف اور اپنی ہمت کے مطابق روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ نفلی روزے ما ہ شعبان میں رکھتے تھے کیونکہ اس مہینے میں بارگاہ الٰہی میں بندوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں اور آپﷺ چاہتے تھے کہ جب آپﷺ کے اعمال پیش ہوں تو آپﷺ روزے سے ہوں، لیکن آپﷺ کا کوئی مہینہ، بلکہ کوئی ہفتہ روزوں سے خالی نہیں ہوتا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2721
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1969
1969. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نفلی روزے اس قدر رکھتے کہ ہم کہتیں: اب آپ کبھی روزہ ترک نہیں کریں گے اور جب چھوڑ دیتے تو ہمیں خیال ہوتا کہ اب آپ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1969]
حدیث حاشیہ: شعبان کی وجہ تسمیہ حافظ صاحب کے لفظوں میں یہ ہے لتشعبهم في طلب المیاہ أو في الغارات بعد أن یخرج شهر رجب الحرام (فتح) یعنی اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں متفرق ہو جایا کرتے تھے، یا ماہ رجب کے خاتمہ پر جس میں اہل عرب قتل و غارت وغیرہ سے بالکل رک جایا کرتے تھے، اس ماہ میں وہ ایسے مواقع کی پھر تلاش کرتے۔ اسی لیے اس ماہ کو انہوں نے شعبان سے موسوم کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1969