جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1612]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3230، ومصباح الزجاجة: 586)، مسند احمد (2/204) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن أبي خالد مدلس و عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1612
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 505/11، 506، وأحکام الجنائز، ص: 167، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 162) بہرحال اس حدیث کی بابت آخر الذکر محققین کی رائے ہی راحج معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
(2) تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جس کسی کی جہاں کہیں میت کے کسی قریبی سے ملاقات ہو وہاں تعزیت کرلے یا اگر میت والے کے ہاں جائے تو تعزیت کرکے واپس آجائے۔ وہاں بلا ضرورت بیٹھے رہنا اور رشتہ داروں ااور ہمسایوں کا جمع رہنا خلاف سنت ہے۔
(3) میت کے گھر والوں کےلئے تو کھانا تیار کیا جانا چاہیے لیکن جب دور ونزدیک سے لوگ آ کرتعزیت کے نام پر مہمان بن بیٹھتے ہیں تو کھانا تیار کرنے والے کو ان سب کے لئے کھانا تیار کرناپڑتا ہے۔ جو ایک ناروا بوجھ ہے۔
(4) اس طرح کے اجتماع کو نوحہ سے اس لئے تشبیہ دی گئی ہے۔ کہ نوحہ میں بھی عورتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ اور اس اکٹھ کا مقصد سوائے اظہار افسوس کے اور کچھ نہیں ہوتا جبکہ یہ مقصد اس طرح جمع ہوئے بغیر بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مردوں کو بھی اظہار افسوس او ر تعزیت کےلئے جمع ہوکر بیٹھنے کی ضرورت نہیں، تعزیت اس کے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1612