محمد بن عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کسی مصیبت میں تسلی دے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت کا جوڑا پہنائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1601]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «(ابو عمارہ قیس میں کلام ہے، اور عبد اللہ بن أبی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبیہ عن جدہ میں جد (دادا) محمد بن عمر و بن حزم ہیں، جن کو رویت حاصل ہے، لیکن صرف صحابہ کرام سے ہی سماع ہے، رسول اکرم ﷺ سے سماع نہیں ہے، لیکن انس رضی اللہ عنہ کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 764، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 195، تراجع الألبانی: رقم: 55)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قيس أبو عمارة: فيه لين (تقريب: 5598) ضعيف (التحرير 3/ 190) وللحديث شواهد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1601
اردو حاشہ: فوائد و مسائلگ (1) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے۔ تاہم تعزیت کرنا صحیح روایات سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو حسن بھی قرار دیا ہے۔ دیکھئے: (الصحیحة، رقم: 195، الطبعة الجدیدۃ، والإرواء، رقم: 764)
(2) تعزیت کا مطلب ہے مصیبت زدہ سے یا میت کے اقارب سے اظہار افسوس کرنا انھیں تسلی دینا صبر کی تلقین کرنا اور ایسی باتیں کرنا جس سے ان کا غم ہلکا ہو۔ مثلاً یوں کہے: اللہ مر حوم کی مغفرت فرمائے۔ ان کے درجے بلند فرمائے۔ اور آپ کو صبر پر اجر عظیم دے۔ یا یہ کہنا کہ اللہ کی امانت تھی۔ جو اس نے لے لی وغیرہ۔
(2) تعزیت کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی ایمان کا جزو ہے۔
(3)(حلة) (خلعت) سے مراد عمدہ لباس ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے بعض نیکیوں کے بدلے میں دیا جائے گا۔ جس سے سب لوگوں کے سامنے سے اس شخص کی عزت وعظمت اور اس کے بلند مقام کا اظہار ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1601