عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو رات میں دفن کیا، اور اس کی قبر کے پاس (روشنی کے لیے) چراغ جلایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1520]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الجنائز 63 (1057)، (تحفة الأشراف: 5889) (حسن)» (شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہو کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف منھال بن خليفة: ضعيف (تقريب: 6917) وأخرجه الترمذي: 1057 مطولاً انوار الصحيفه، صفحه نمبر 433
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1520
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے۔ نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دیگر شواہد بھی بیان کئے ہیں۔ دیکھئے: (أحکام الجنائز، ص: 108) لہٰذا رات کو دفن کرنا مجبوری کے وقت جائز ہے۔ جیسا کہ آئندہ آنے والی حدیث سے بھی یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ جیسے ہماے شیخ نے صحیح مسلم کی حدیث (934) کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل قرار دیا ہے۔ دیکھئے آئندہ حدیث کی تحقیق وتخریج۔
(2) رات کو دفن کرتے وقت روشنی کے لئے چراغ وغیرہ جلانا درست ہے۔ خواہ چراغ قبر کے اندر تک لے جانا پڑے۔ ممنوع کام دفن کے بعد قبر کے اوپر چراغ جلانا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1520
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1057
´رات میں تدفین کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر میں رات کو داخل ہوئے تو آپ کے لیے ایک چراغ روشن کیا گیا۔ آپ نے میت کو قبلے کی طرف سے لیا۔ اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے! تم بہت نرم دل رونے والے، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1057]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں ہے۔
2؎: یہی مذہب امام شافعی ؒ، امام احمد ؒاوراکثرلوگوں کا ہے اوردلیل کے اعتبارسے قوی اورراجح بھی یہی ہے، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبرمیں اتارا اورکہا: سنت طریقہ یہی ہے، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمرمیں اختلاط کا شکارہوگئے اورساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اورابواسحاق سبیعی کی جوروایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ معنعن ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔
3؎: حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اورجابرکی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے (اَنَّ النَّبِیَّﷺ زَجَرَأَن یقبرَالرَّجُل لَیلاً حَتّٰی یُصَلّیٰ عَلَیهِ)(رواہ مسلم) اس کا جواب دیاگیا ہے کہ یہ زجرصلاۃِجنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیا کفن دینے کے لیے کرتے تھے لہٰذا اگران چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تورات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرمﷺکی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیسا کہ احمد ؒ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکروعمرکی تدفین بھی رات میں ہوئی اورفاطمہ رضی اللہ عنہا کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔
نوٹ: (سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں۔ )
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1057