ابراہیم بن مسلم ہجری کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے ایک بیٹے کی نماز جنازہ پڑھی، تو انہوں نے اس میں چار تکبیریں کہیں، چوتھی تکبیر کے بعد کچھ دیر ٹھہرے، (اور سلام پھیرنے میں توقف کیا) تو میں نے لوگوں کو سنا کہ وہ صف کے مختلف جانب سے «سبحان الله» کہہ رہے ہیں، انہوں نے سلام پھیرا، اور کہا: کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں پانچ تکبیریں کہوں گا؟ لوگوں نے کہا: ہمیں اسی کا ڈر تھا، عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا کرنے والا نہیں تھا، لیکن چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار تکبیریں کہنے کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے تھے، اور جو اللہ توفیق دیتا وہ پڑھتے تھے، پھر سلام پھیرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1503]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5152، ومصباح الزجاجة: 535) وقد أخرجہ: مسند احمد (4/356، 383) (حسن)» (متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں ابراہیم بن مسلم الہجری الکوفی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إبراهيم بن مسلم الھجري لين الحديث رفع موقوفات (تقريب: 2520) لين الحديث: أي ضعيف وأخرج البيھقي (4/ 35) بإسناد قوي عن أبي يعفور وقدان عن ابن أبي أوفي به نحوه مختصرًا وھو الصحيح انوار الصحيفه، صفحه نمبر 432
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1503
اردو حاشہ: فائدہ: اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل چوتھی تکبیر کے فوراً بعد سلام پھیرنے کا بھی تھا اور چوتھی تکبیر کے بعد کوئی دعا پڑھ کرسلام پھیرنے کا بھی اس لئے دونوں ہی طریقے ہی درست ہیں مذکورہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1503