زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے سراپا صلح ہوں جس سے تم لوگوں نے صلح کی، اور سراپا جنگ ہوں اس کے لیے جس سے تم لوگوں نے جنگ کی“۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 145]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/المناقب 61 (3870)، (تحفة الأشراف: 3662)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/442) (ضعیف)» (اس سند میں علی بن المنذر میں تشیع ہے، اسباط بن نصر صددق لیکن کثیر الخطا ٔ ہیں، اور غرائب بیان کرتے ہیں، سدی پر تشیع کا الزام ہے، اور ان کی حدیث میں ضعف ہے، نیز صبیح لین الحدیث ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 6028)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3870) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 380
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث145
اردو حاشہ: اس قسم کی روایات سے ان صحابہ و تابعین کی مذمت پر استدلال کیا جاتا ہے، جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا مبینہ طور پر یا واقعتاً اختلاف ہوا، حالانکہ اول تو یہ روایت ہی ضعیف ہے۔ ثانیاً اگر غور کیا جائے تو اس سے ان لوگوں کی مذمت نکلتی ہے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت اور ان کی اطاعت و نصرت کا دعوی کیا اور پھر ان سے غداری کر کے انہیں شہید کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک خارجی کے ہاتھ سے ہوئی اور خوارج شروع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پارٹی میں شامل تھے، بعد میں مخالف ہوئے۔ اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلانے والے اور بعد میں انہیں شہید کرنے والے بھی وہی تھے جو ان سے محبت کا دعویٰ رکھتے تھے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔ اس روایت کی روشنی میں معاویہ رضی اللہ عنہ مخالفین میں سے خارج ہو گئے، لہذا ان پر طعن کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 145