نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! ہم کو بیت المقدس کا مسئلہ بتائیے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو حشر و نشر کی زمین ہے، وہاں جاؤ اور نماز پڑھو، اس لیے کہ اس میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نماز کی طرح ہے“ میں نے عرض کیا: اگر وہاں تک جانے کی طاقت نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم تیل بھیج دو جسے وہاں کے چراغوں میں جلایا جائے، جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں گیا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1407]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة 14 (457)، (تحفة الأشراف: 18087، ومصباح الزجاجة: 497)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/463) (منکر)» (بوصیری نے کہا کہ بعض حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے، شیخ البانی نے اس حدیث کو پہلے (صحیح ابو داود 68) میں رکھا تھا، بعد میں اسے ضعیف ابی داود میں رکھ دیا، ابوداود کی روایت میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا ذکر نہیں ہے، وجہ نکارت یہ ہے کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، حجاز سے اسے بیت المقدس بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ نیز صحیح احادیث میں مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں ہے، جب کہ بیت المقدس کے بارے میں یہ ثواب صحاح میں نہیں وارد ہوا ہے)
قال الشيخ الألباني: منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف سنن أبي داود (457) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 427