الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
196. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
196. باب: بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1408
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَهْمِ الْأَنْمَاطِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الدَّيْلَمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، ایک تو یہ کہ میں مقدمات میں جو فیصلہ کروں، وہ تیرے فیصلے کے مطابق ہو، دوسرے مجھ کو ایسی حکومت دے کہ میرے بعد پھر ویسی حکومت کسی کو نہ ملے، تیسرے یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو باتیں تو اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائیں، مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1408]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/المساجد 6 (694)، (تحفة الأشراف: 8844، ومصباح الزجاجة: 497)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/176) (صحیح)» ‏‏‏‏ (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید اللہ بن الجہم مجہول الحال ہیں، اور ایوب بن سوید بالاتفاق ضعیف، بوصیری نے ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث کو ابوداود نے ابن عمرو کی حدیث سے روایت کیا ہے، ایسے ہی نسائی نے سنن صغری میں روایت کی ہے)، یہ حدیث ابوداود میں ہمیں نہیں ملی، اور ایسے ہی مصباح الزجاجة کے محقق د.شہری کو بھی نہیں ملی (502) نیز نسائی نے کتاب المساجد باب فضل المسجد الأقصی (1؍8) میں اور احمد نے مسند میں (2؍176) تخریج کیا ہے ابن خزیمہ (2؍176) اور ابن حبان (1042 مواردہ) اور حاکم (1؍20؍21) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے)

وضاحت: ۱؎: سلیمان علیہ السلام کا حکم ہونا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے: «ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما» (سورة الأنبياء: 79)، «فسخرنا له الريح تجري بأمره رخاء حيث أصاب» (سورة ص: 36) نیز ہوا پر اور جن و انس پر اور چرند و پرند سب پر ان کی حکومت تھی، جیسا کہ اس آیت میں موجود ہے: «والشياطين كل بناء وغواص» (سورة ص: 37) اور تیسری بات کی صراحت چونکہ قرآن میں نہیں ہے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فرمایا مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرىسليمان بن داود لما بنى بيت المقدس سأل الله خلالا ثلاثة سأل الله حكما يصادف حكمه فأوتيه وسأل الله ملكا لا ينبغي لأحد من بعده فأوتيه وسأل الله حين فرغ من بناء المسجد أن لا يأتيه أحد لا ينهزه إلا الصلاة فيه
   سنن ابن ماجهلما فرغ سليمان بن داود من بناء بيت المقدس سأل الله ثلاثا حكما يصادف حكمه وملكا لا ينبغي لأحد من بعده وألا يأتي هذا المسجد أحد لا يريد إلا الصلاة فيه إلا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه فقال النبي أما اثنتان فقد أعطيهما وأرجو أن يكون قد أعطي الثالثة

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1408 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1408  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اللہ کے فیصلے کے مطابق کا مطلب یہ ہے کہ انھیں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق ملے اور ان سے اجتہادی غلطی نہ ہو۔

(2)
پہلی دو درخواستوں کی قبولیت قرآن میں مذکور ہے۔
ارشاد ہے:
﴿وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾  (ص: 20)
 ہم نے اسے حکمت دی اور بات کا فیصلہ کرنا نیز ارشاد ہے:
﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿35﴾ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ ﴿36﴾ وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ ﴿37﴾ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ﴾  (ص: 35)
 انھوں نے کہا! اے میرے رب مجھے بخش دے۔
اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما۔
جو میرے سوا کسی کے لائق نہ ہو۔
بلاشبہ تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔
چنانچہ ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کردیا۔
وہ ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی۔
اور ہر عمارت بنانے والے غوطہ خور شیاطین (جنات)
کو بھی (ان کے ماتحت کردیا)
اور دوسرے (جنات)
کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

(3)
اس حدیث میں بیت المقدس کی زیارت اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1408   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 694  
´مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) اور اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 694]
694 ۔ اردو حاشیہ: پہلی دو درخواستوں پر قبولیت ہو گئی اور اس کا بیان بھی حدیث میں آگیا۔ تیسری درخواست پر قبولیت کا ذکر پہلی دو کی طرح حدیث میں نہیں آیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ ضرور فرمایا ہے کہ «فنحن نرجوا أن یکون اللہ عزوجل قد أعطاہ إیاہ» [مسند احمد: 176/2]
ہمیں امید ہے کہ اللہ عزوجل نے ان (سلیمان ؑ) کو یہ بھی عطا کر دیا ہو گا۔ لہٰذا اس کی بھی قبولیت معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ بیت اللہ کے بارے میں تو احادیث میں ذکر ہے کہ جو اس کا حج کرے وہ گناہوں سے کلیتاً پاک ہو جاتا ہے جیسے اسے اس کی ماں نے جنا ہو۔ [صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1521، و صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1350]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 694