رفاعہ جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ مہلت دیتا ہے (اپنے بندوں کو کہ وہ سوئیں اور آرام کریں) یہاں تک کہ جب رات کا آدھا یا اس کا دو تہائی حصہ گزر جاتا ہے، تو فرماتا ہے: میرے بندے! میرے سوا کسی سے ہرگز نہ مانگیں، جو کوئی مجھے پکارے گا میں اس کی دعا قبول کروں گا، جو مجھ سے سوال کرے گا میں اسے دوں گا، جو مجھ سے مغفرت چاہے گا، میں اسے بخش دوں گا، طلوع فجر تک یہی حال رہتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1367]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3611، ومصباح الزجاجة: 480)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/16)، سنن الدارمی/الصلاة 168 (1522) (صحیح)» (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن مصعب ضعیف ہیں، جن کی عام احادیث او زاعی سے مقلوب (الٹی پلٹی) ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/198)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو کر عبادت کرنا چاہئے، اور اللہ تعالی سے دعائیں کرنا اور گناہوں سے مغفرت طلب کرنا چاہئے کیونکہ یہ دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، اور خود اللہ رب العزت بندوں سے فرماتا ہے: جو کوئی مجھے پکارے گا، میں اس کی پکار کو سنوں گا، جو کوئی مانگے گا اسے دوں گا، اور جو کوئی گناہوں سے معافی طلب کرے گا، میں اسے معاف کر دوں گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1367
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: 1۔ مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کوسونے اور آرام کرنے کاوقت دیتا ہے بندوں سے چوبیس گھنٹے عبادت میں مشغول رہنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ حدیث میں مذکور ندا ایک خاص وقت کے بعد شروع ہوتی ہے۔
(2) آدھی رات یا تہائی رات باقی ہوتو اٹھ کر تہجد پڑھنا اور دعا کرنا ابتدائی رات میں تہجد پڑھنے اور دعا کرنے سے افضل ہے۔ البتہ جس شخص کو یہ خطرہ ہو وہ افضل وقت میں بیدار نہیں ہوسکے گا۔ وہ عشاء کے بعد ہی تہجد وغیرہ ادا کرسکتا ہے۔ تاکہ ثواب سے بالکل محروم نہ رہ جائے۔
(3) بندوں کو اپنی اُمید اور خوف کا مرکز صرف اللہ کی ذات کو بنانا چاہیے۔ کیونکہ جو راحت یا تکلیف مخلوق کے ہاتھ سے پہنچتی ہے۔ وہ بھی اللہ کی رحمت اور حکمت کی بنیاد پر اسی کے حکم سے پہنچتی ہے۔
(4) رات کی نفلی عبادت دن کی نفلی عبادت سےافضل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1367