الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
164. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْحَرْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ
164. باب: عید کے دن (عیدگاہ میں) نیزہ لے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1305
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا صَلَّى يَوْمَ عِيدٍ أَوْ غَيْرَهُ، نُصِبَتِ الْحَرْبَةُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ مِنْ خَلْفِهِ"، قَالَ نَافِعٌ: فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید یا کسی اور دن جب (میدان میں) نماز پڑھتے تو نیزہ آپ کے آگے نصب کر دیا جاتا، آپ اس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے۔ نافع کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے امراء نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1305]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8078)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 92 (498)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (501)، سنن ابی داود/الصلاة 102 (687)، سنن النسائی/القبلة 4 (748)، مسند احمد (2/13، 18، 142)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 941) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخارييركز له الحربة فيصلي إليها
   صحيح البخاريإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   صحيح البخاريتركز الحربة قدامه يوم الفطر والنحر ثم يصلي
   صحيح البخارييغدو إلى المصلى والعنزة بين يديه تحمل وتنصب بالمصلى بين يديه فيصلي إليها
   صحيح مسلمإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   صحيح مسلميركز يغرز العنزة ويصلي إليها
   سنن أبي داودإذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك في السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
   سنن النسائى الصغرىيركز الحربة ثم يصلي إليها
   سنن النسائى الصغرىيخرج العنزة يوم الفطر ويوم الأضحى يركزها فيصلي إليها
   سنن ابن ماجهإذا صلى يوم عيد أو غيره نصبت الحربة بين يديه فيصلي إليها والناس من خلفه
   سنن ابن ماجهتخرج له حربة في السفر فينصبها فيصلي إليها
   سنن ابن ماجهيغدو إلى المصلى في يوم العيد والعنزة تحمل بين يديه فإذا بلغ المصلى نصبت بين يديه فيصلي إليها

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1305 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1305  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سترہ صرف عید کی نماز کے لئے خاص نہیں۔
دوسری کوئی نماز بھی جب مسجد کے باہر ادا کی جائے۔
مثلاً سفر میں۔
۔
۔
تو امام کے سامنے سترہ ہونا چاہیے۔

(2)
مقتدیوں کے لئے الگ سترے کی ضرورت نہیں۔
ہاں جب مقتدی علیحدہ سنتیں وغیرہ پڑھیں گے۔
تو ان کےلئے الگ سترہ ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1305   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 687  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ مبارک کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 687]
687۔ اردو حاشیہ:
یعنی امراء و حکام لوگ جو عید وغیرہ کے موقع پر بھالا، نیزہ وغیرہ لے کر نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کی اصل یہی ہے۔ نماز فرض ہو یا نفل، سفر ہو یا حضر، ہر موقع پر سترے کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 687   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 748  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے سامنے) نیزہ گاڑتے تھے، پھر اس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 748]
748 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سترے سے مراد وہ چیز ہے جو نمازی کی نماز کو شیطان اور گزرنے والوں سے محفوظ کرے۔ سترہ نمازی کے خیالات کو منتشر ہونے سے بچاتا ہے، بشرطیکہ نظر سترے سے تجاوز نہ کرے جیسا کہ مسنون ہے۔ اسی طرح سترہ نمازی کے آگے سے گزرنے والوں کے اثرات بد سے نماز اور نمازی کو محفوظ کرتا ہے۔ نمازی کے آگے سے گزرنا نمازی کے خشوع و خضوع کو ختم کرتا ہے اور گزرنے والے کو گناہ گار بناتا ہے۔ سترے کے آگے سے گزرنا نمازی اور گزرنے والے کو ان دونوں چیزوں سے بچاتا ہے۔
➋ اکیلے نمازی کو اگر وہ کھلی جگہ نماز پڑھ رہا ہے تو اسے اپنے سامنے سترہ رکھنا چاہیے۔ امام کے پیچھے ہو تو صرف امام کے سامنے سترے کا ہونا کافی ہے۔ پہلے سے موجود چیز بھی سترہ بن سکتی ہے جیسے ستون وغیرہ۔
➌ سترہ تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچا اور اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ دور سے صاف نظر آئے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو پتا ہی نہ چلے۔ پالان کی پچھلی لکڑی بھی تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچی ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 748   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1566  
´عیدین کی نماز نیزہ سامنے رکھ کر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی دونوں میں نیزہ لے جاتے اور اسے گاڑتے، پھر اس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1566]
1566۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مفہوم یہ ہے کہ کھلی جگہ میں امام کے آگے سترہ ہونا چاہیے تاکہ کسی کے گزرنے سے نماز نہ ٹوٹ جائے۔
➋ سترے کی غرض سے نیزہ وغیرہ لے جایا جا سکتا ہے اگرچہ آپ نے بھیڑ کے موقع پر اسلحہ لے جانے سے روکا ہے کیونکہ کسی کو اتفاقاً زخم بھی لگ سکتا ہے، البتہ صرف امام کے ساتھ نیزہ ہو تو ایسا کوئی خطرہ نہیں، لہٰذا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1566   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث941  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سفر میں نیزہ لے جایا جاتا اور اسے آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا، آپ اس کی جانب نماز پڑھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 941]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ سفر میں بھی سترے کا اہتمام فرماتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 941   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1304  
´عید کے دن (عیدگاہ میں) نیزہ لے جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن عید گاہ کی جانب صبح جاتے، اور آپ کے سامنے نیزہ لے جایا جاتا، جب آپ عید گاہ پہنچ جاتے تو آپ کے آگے نصب کر دیا جاتا، آپ اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز عید پڑھاتے، اس لیے کہ عید گاہ ایک کھلا میدان تھا اس میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے نماز کے لیے سترہ بنایا جاتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1304]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (عنزۃ)
چھوٹے نیزے یا برچھی کوکہتے ہیں۔

(2)
نماز میں امام کے سامنے سترہ ہونا چاہیے۔
مسجد میں دیوار ہی کافی ہے۔
جبکہ میدان میں کوئی اور چیز رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

(4)
بزرگ شخصیت کے لئے اس کی ضرورت کی چیز اٹھا کر لے جانا اور اس طرح کی دوسری خدمت انجام دینا احترام میں شامل ہے۔

(3)
نماز باجماعت میں امام کےلئے سترہ کافی ہے۔
مقتدیوں کے آگے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1304   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1115  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ عید کے دن باہر نکلتے تو نیزہ اپنے آگے گاڑنے کا حکم دیتے اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے ہوتے سفر میں بھی آپﷺ ایسا ہی کرتے۔ اسی بنا پر حکام نیزہ رکھتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1115]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سترہ کا مقصد یہ ہے کہ نمازی کے سامنے کوئی چیز آڑ یا رکاوٹ کے لیے رکھی جائے تاکہ نمازی کی نظر اس سے پہلے پڑے اور اس کے پرے سے گزرنے والے سے اس کی نماز متاثر نہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہے کہ نماز بلاوجہ اپنی نظر سجدہ گاہ سے نہ ہٹائے اور اگر انسان جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو پھر امام کا سترہ ہی کافی ہے ہر نماز کو الگ سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی اور اس کی ضرورت مسجد سے باہر کھلی جگہ میں پیش آئے گی جیسا کہ آپﷺ عیدین اور سفر کے موقع پر آگے نیز ہ نصب کرواتے تھے مسجد میں دیوار ہی امام کے لیے سترہ ہے سترہ کی تعداد آپﷺ نے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کو قرار دیا ہے اور یہ ایک ہاتھ یا اس سے کچھ بڑی ہوتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1115   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 972  
972. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے سامنے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر نیزہ گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:972]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ عید میدان میں پڑھی جاتی تھی اور میدان میں نماز پڑھنے کے لیے سترہ ضروری ہے، اس لیے چھوٹا سا نیزہ لے لیتے تھے جو سترہ کے لیے کافی ہو سکے اور اسے آنحضور ﷺ کے سامنے گاڑ دیتے تھے۔
نیزہ اس لیے لیتے تھے کہ اسے گاڑ نے میں آسانی ہوتی تھی۔
امام بخاری ؒ اس سے پہلے لکھ آئے ہیں کہ عید گاہ میں ہتھیار نہ لے جانا چاہیے۔
یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ضرورت ہو تو لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خود آنحضور ﷺ کے سترہ کے لیے نیزہ لے جایا جاتا تھا (تفہیم البخاری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 972   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 973  
973. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ صبح سویرے عیدگاہ کی طرف تشریف لے جاتے اور نیزہ آپ کے آگے آگے اٹھایا جاتا تھا، اسے عیدگاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:973]
حدیث حاشیہ:
تشریح اوپر گزر چکی ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ عیدین کی نماز جنگل (میدان)
میں پڑھا کرتے تھے پس مسنون یہی ہے جو لوگ بلا عذر بار ش وغیرہ مساجد میں عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں وہ سنت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 973   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:494  
494. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینے سے) باہر تشریف لے جائے تو چھوٹا نیزہ گاڑنے کا حکم دیتے۔ جب اس کی تعمیل کر دی جاتی تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ دوران سفر میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے بھی اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت اپنا لی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:494]
حدیث حاشیہ:

اس روایت سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عیدین کی نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو نیزہ وغیرہ آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کے سامنے نصب کردیاجاتا، پھر آپ نماز پڑھاتے، اسی سترے کو مقتدیوں کے لیے بھی کافی خیال کیاجاتا تھا، کیونکہ مقتدیوں کے لیے الگ سترے کا ہونا کسی روایت سے ثابت نہیں، نیز یہ بھی تفصیل نہیں کہ نیزے کو صرف امام کے لیے سترہ مانا جائے، پھر امام کو قوم کے حق میں سترہ قرار دیا جائے۔

سعد القرظ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا جسے آپ نے اس طرح کی ضروریات کے لیے استعمال فرمایا جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت زبیر بن عوام ؓ کو غزوہ احد میں ایک مشرک سے ہاتھ لگا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے ان سے لے لیا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ پہلے حضرت زبیر بن عوام ؓ والا نیزہ استعمال ہوتا تھا۔
پھر نجاشی کا ہبہ کیا ہوا نیزہ استعمال ہونے لگا۔
(فتح الباري: 741/1)

رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نیزہ وغیرہ کے ساتھ رکھنے میں مختلف مصلحتیں تھیں جن میں ایک مصلحت یہ تھی کہ اسے کھلے میدان میں نماز کے وقت بطور سترہ استعمال کیا جاتا تھا، نیزبوقت ضرورت دشمن سے بچاؤ کے بھی کام آسکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 494   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:498  
498. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے لیے نیزہ گاڑ دیا جاتا تھا اور آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:498]
حدیث حاشیہ:
حربہ اس نیزے کو کہتے ہیں جس کا پیکان نوک دار ہو۔
عام طور پر شارحین نے مقصد عنوان سے بحث نہیں کی۔
البتہ نماز میں بت پرستوں کی مشابہت سے اجتناب کرنا شریعت کاایک اصول ہے۔
چونکہ ہتھیار ایک ایسی چیز ہے جس کی بعض فرقوں کے ہاں تعظیم کی جاتی ہے، ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ شریعت میں اس قسم کے تصوف کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ شریعت کی روسے ہتھیاروں کو آگے نصب کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے، اس میں نہ کوئی تشبه ہے اور نہ ان کی تعظیم ہی مقصود ہوتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 498   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:972  
972. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے سامنے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر نیزہ گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:972]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلے ایک باب میں امام بخاری ؒ نے ثابت کیا تھا کہ عید کے دن ہتھیار اٹھانا منع ہے جبکہ اس حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کوئی تعمیر شدہ عیدگاہ نہیں تھی بلکہ آپ کھلے میدان میں نماز ادا کرتے تھے، اس لیے نیزہ وغیرہ اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیتے تاکہ اس سے سترے کا کام لیا جائے۔
ایسے حالات میں کوئی چیز ساتھ لے جانے کی ممانعت نہیں۔
اگر اس کی ضرورت نہ ہو تو محض نمائش کے لیے آلات حرب ساتھ لے جانا جائز نہیں تاکہ اجتماع اور بھیڑ کی وجہ سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔
(2)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ امام کا سترہ مقتدی حضرات کا بھی سترہ ہے، انہیں مستقل طور پر اپنا سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 972   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:973  
973. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ صبح سویرے عیدگاہ کی طرف تشریف لے جاتے اور نیزہ آپ کے آگے آگے اٹھایا جاتا تھا، اسے عیدگاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:973]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے زمانے میں یہ بات عام ہو چکی تھی کہ بادشاہ وقت جب عیدین کی نماز کے لیے عید گاہ جاتا تو لوگ اس کے آگے ہتھیار اٹھا کر چلتے تھے۔
امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز عید کے لیے نکلتے تھے تو نیزہ ساتھ لے کر جانے کا حکم فرماتے تھے۔
اسے عیدگاہ پہنچ کر آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور باقی لوگ آپ کے پیچھے ہوتے۔
دوران سفر میں بھی ایسا کرتے تھے۔
اسی سے امراء نے یہ طریقہ اختیار کر لیا تھا۔
(2)
ازدحام میں ایسا کرنا منع ہے کیونکہ ایسے موقع پر کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اس کا سبب خوف ہلاکت ہے۔
لیکن جب کوئی شخص امام کے آگے ہتھیار اٹھا کر جا رہا ہے جس سے کسی کو تکلیف کا خطرہ نہیں تو اس صورت میں اسلحہ اٹھانا جائز ہے، کیونکہ اس میں علت نہی نہیں پائی جاتی۔
منع کی صورت اس کے برعکس ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 973