ابوعبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، یا فرمایا کہ سورج کے ساتھ وہ اس کی دونوں سینگیں نکلتی ہیں، جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے، پھر جب سورج آسمان کے بیچ میں آتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈھل جاتا ہے تو شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے، پھر جب ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب ڈوب جاتا ہے تو وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے، لہٰذا تم ان تین اوقات میں نماز نہ پڑھو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1253]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/المواقیت 30 (560)، (تحفة الأشراف: 9678)، موطا امام مالک/القرآن 10 (44)، مسند احمد (4/348، 349) (ضعیف)» (ابوعبد اللہ صنابحی عبد الرحمن بن عسیلہ تابعی ہیں اس لئے یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے نیز ملاحظہ ہو: ضعیف الجامع برقم: 1472)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ اوقات مشرکین کی عبادت کے اوقات ہیں جو اللہ کے سوا سورج کی عبادت کرتے ہیں، تو ان اوقات میں گو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے لیکن مشرکین کی مشابہت کی وجہ سے مکروہ اور منع ٹھہری۔ یہاں ایک اعتراض ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین کروی (گول) ہے اور وہ سورج کے گرد گھوتی ہے اب جو لوگ زمین کے چاروں طرف رہتے ہیں، ان کا کوئی وقت اس سے خالی نہ ہو گا یعنی کہیں دوپہر ضرور ہی ہو گی اور کہیں سورج نکل رہا ہو گا اور کہیں ڈوب رہا ہو گا، پس ہر وقت میں نماز منع ٹھہرے گی، اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک ملک والوں کو اپنے طلوع اور غروب اور استواء سے غرض ہے، دوسرے ملکوں سے غرض نہیں، پس جس وقت ہمارے ملک میں زوال ہو جائے تو نماز صحیح ہو گی، حالانکہ جس وقت ہمارے ہاں زوال ہوا ہے اس وقت ان لوگوں کے پاس جو مغرب کی طرف ہٹے ہوئے ہیں استواء کا وقت ہوا۔ ایک اعتراض اور ہوتا ہے کہ جب سورج کسی وقت میں خالی نہ ہوا یعنی کسی نہ کسی ملک میں اس وقت استواء ہو گا، اور کسی نہ کسی ملک میں اس وقت طلوع ہو گا، اور کسی نہ کسی ملک میں غروب تو شیطان سورج سے جدا کیونکر ہو گا بلکہ ہر وقت سورج کے ساتھ رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک جو شیطان سورج پر متعین ہے وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، اور سورج کے ساتھ ہی ساتھ پھرتا رہتا ہے، لیکن جدا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ سورج کے ساتھ ہی وہ ہماری سمت سے ہٹ جاتا ہے، اور مشرکوں کی عبادت کا وقت ہمارے ملک میں ختم ہو جاتا ہے، اور ہمارے لیے نماز کی ادائیگی اور عبادت کرنا صحیح ہو جاتا ہے، گو نفس الامر میں وہ سورج سے جدا نہ ہو اس لئے کہ ہر گھڑی کہیں نہ کہیں طلوع اور غروب اور استواء کا وقت ہے۔ «واللہ اعلم» ۔
الشمس تطلع بين قرني الشيطان فإذا ارتفعت فارقها إذا كانت في وسط السماء قارنها فإذا دلكت إذا دنت للغروب قارنها فإذا غربت فارقها فلا تصلوا هذه الساعات الثلاث
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1253
اردو حاشہ: فوئاد و مسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے صحیح، الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے سنداً مرسل او دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت (فَإِذَا كَانَتْ فِي وَسَطِ السَّمَاءِ قَارَنَهَا فَإِذَا دَلَكَتْ فَارَقَهَا) ”جب سورج آسمان کے درمیان میں پہنچتا ہے۔ تو شیطان اس سے مل جاتا ہے۔ جب ڈھل جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے۔“ اس جملے کے علاوہ صحیح ہے۔ تاہم انہی کی رائے أقرب إِلی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مذکورہ روایت کوصحیح کہنے والوں نے اس روایت کے جو شواہد ذکر کیے ہیں۔ ان میں اس جملے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان میں مطلق طور پر تین اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بعض روایات جو کہ مذکورہ روایت سے زیادہ صحیح ہیں۔ ان میں ممانعت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ کہ دوپہر کے وقت جہنم دکھایا جاتا ہے۔ لہذا مذکورہ روایت میں مذکور نماز کی ممانعت کی وجہ درست نہیں بلکہ صحیح اور درست یہی ہے۔ کہ دوپہر کے وقت جہنم دہکایا جاتا ہے۔ وللہ أعل۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (ضعیف سنن ابن ماجة للألبانی، رقم: 2588 وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1253 والموسوعة حدیثية مسند الإمام أحمد: 212/31)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1253
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 560
´نماز کے ممنوع اوقات کا بیان۔` عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج نکلتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کی سینگ ہوتی ہے ۱؎، پھر جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے، پھر جب دوپہر کو سورج سیدھائی پر آ جاتا ہے تو پھر اس سے مل جاتا ہے، اور جب ڈھل جاتا ہے تو الگ ہو جاتا ہے، پھر جب سورج ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے، تو اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈوب جاتا ہے تو وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (تینوں) اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 560]
560 ۔ اردو حاشیہ: ➊احادیث میں پانچ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے: ٭عین طلوع کے وقت حتیٰ کہ سورج بقدر نیزہ بلند ہو جائے۔ ٭نصف النہار کے وقت، یعنی جب سورج عین سر پر ہو۔ ٭سورج کے زردی مائل ہونے سے لے کر غروب تک۔ ٭نماز فجر کے بعد حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے۔ ٭عصر کے بعد۔ تمام علماء ان اوقات میں بلاسبب فرائض و نوافل پڑھنے کی حرمت کے قائل ہیں۔ ہاں، اگر کوئی سببی نماز ہو، جیسے ضروری نماز جو پڑھ نہ سکا ہو، تحیۃ المسجد، وضو کی سنتیں، نماز کسوف، نماز استسقاء، طواف کی دورکعتیں اور فرض نماز کی دوبارہ ادائیگی جبکہ مسجد میں موجود ہو اور نماز کی اقامت ہو جائے وغیرہ تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ آئمہ ثلاثہ سوائے فرائض کے باقی تمام نوافل، خواہ سببی ہوں یا غیرسببی، کی ممانعت کے قائل ہیں اور ان کی دلیل یہی ممانعت والی روایات کا عموم ہے جبکہ امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ ان ممنوعہ اوقات میں ہر اس نفل کی ادائیگی کے جواز کے قائل ہیں جس کی کوئی وجہ اور سبب ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دو عموم آپس میں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس عموم میں تخصیص ہوئی ہے، لہٰذا جو عموم تخصیص سے محفوظ ہے اسے کمزور عموم، یعنی العموم المخصوص پر مقدم کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب اس ممانعت سے فوت شدہ نماز مستثنیٰ ہے جو کہ یاد آنے یا بیدار ہونے پر پڑھ لی جاتی ہے، جب بھی یاد آئے جب بھی بیدار ہوکیونکہ حدیث میں اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو سنتیں طلوع شمس کے بعد پڑھیں اور نوافل کی قضا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ادا کی، لہٰذا جب ان مکروہ اوقات میں ان مذکورہ نمازوں کے پڑھنے کی اجازت شریعت میں ہے اور ان صورتوں کو مستثنیٰ کر لیا گیا ہے تو اس قسم کے دیگر نوافل جو اسباب کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں تو ان کی تخصیص کیوں نہیں ہو سکتی؟ اس لیے انسان جب بھی مسجد میں داخل ہو بلا کراہت تحیۃ المسجد پڑھ سکتا ہے، ایسے ہی دیگر ضروریات کی بنا پر پڑھی جانے والی نمازوں کو ان ممنوعہ اوقات میں پڑھنا جائز ہو گا کیونکہ ان کی ادائیگی کے وقت اسباب پیش نظر ہوتے ہیں، لہٰذا کسی وقت کی قید کے بغیر جب بھی اسباب کا تقاضا ہو، نوافل پڑھنے جائز ہیں کیونکہ اگر اسباب کو نظرانداز کر دیا جائے تو بہت سے دینی مصالح ترک ہو جائیں گے اور یہ شریعت کا مزاج نہیں۔ اس طرح تمام دلائل کا تعارض رفع ہو جاتا ہے اور مسئلے میں وارد مختلف احادیث پر عمل بھی ممکن ہے۔ واللہ آعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاوی شیخ الإسلام: 33؍187، و توضیح الأحکام شرح بلوغ المرام: 1؍492، والفقه الإسلامي وادلته: 1؍524، وشرح النسائي للإتیوبي: 7؍299] (2)شیطان کا طلوع اور غروب کے وقت سورج کے ساتھ مل جانا اس لیے ہے کہ لوگ ان اوقات میں سورج کی پوجا کرتے ہیں، حدیث میں ہے: «وحینئذ یسجد لھا الکفار»”اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔“[صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 532، وإرواء الغلیل: 2؍237] شیطان چاہتا ہے کہ میری بھی پوجا ہو، لہٰذا وہ سورج اور اس کی پوجا کرنے والوں کے درمیان سورج کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ اور عین استوا کے وقت نماز سے ممانعت کی علت بھی حدیث میں منقول ہے، فرمایا: «فإنه حینئذ تسجرجھنم»”کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے۔“[صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 832] یہ تو حقیقی معنی ہیں اور اس میں کوئی چیز خلاف عقل یا بعید نہیں، البتہ بعض لوگ اسے استعارے پر محمول کرتے ہیں۔ ➌ان تین اوقات میں نفل نماز سے روکا گیا ہے نہ کہ رہ جانے والی فرض نماز سے، وہ تو پڑھی جا سکتی ہے جب بھی یاد یا جاگ آجائے۔ لیکن عصر کے بعد ممانعت کے وقت کی ایک دوسری حدیث میں تخصیص وارد ہے اور وہ، وقت ہے جب سورج زردی مائل ہو جائے، یعنی اس وقت کوئی نماز بلاوجہ پڑھنے سے ممانعت ہے، ہاں! جب تک عصر کے بعد سورج چمکتا اور روشن رہے، زردی مائل نہ ہوا ہو، مطلقاً نوافل پڑھے جاسکتے ہیں، اس کی دلیل آئندہ آنے والی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث (574) ہے۔ دیکھیے: [حدیث: 574، وإرواء الغلیل: 2؍237، وشرح سنن النسائي للإتیوبي: 7؍363] ➍شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ حدیث ان الفاظ: «فاذا استوت قارنھا فاذا زالت فارقھا» کے علاوہ صحیح ہے۔ دیکھیے: [إرواء الغلیل: 2؍238]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 560