عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اس وقت وہ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کے مقابلے میں (ثواب میں) آدھی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1229]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8837)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 16 735)، سنن ابی داود/الصلاة 179 (950)، سنن النسائی/قیام اللیل 18 (1660)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة 6 (19)، مسند احمد (2/162)، سنن الدارمی/الصلاة 108 (1424) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے تندرست اور صحت مند آدمی ہی نہیں بلکہ مریض بھی مراد ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے سے آدھا ہے“۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 950
´بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بیٹھ کر پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے“، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے (تعجب سے) اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے؟“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: ”بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو نصف ثواب ملتا ہے“ اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سچ ہے، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں“۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 950]
950۔ اردو حاشیہ: ➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ نوافل بیٹھ کر پڑھتے تو پورا ثواب پاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی امور کے اس طرح پابند ہیں، جس طرح کہ امت ہے۔ «آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ»[البقره۔ 285] مگر جہاں آپ کی خصوصیت بیان ہو گئی ہے وہاں استثناء ہے۔ ➋ بلا عذر بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے سے آدمی کو آدھا ثواب ملتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 950