مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے لیکن ابھی پورے طور پہ کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے، اور اگر پورے طور پہ کھڑا ہو گیا ہو تو نہ بیٹھے، اور آخر میں سہو کے دو سجدے کرے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1208]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک سیدھا کھڑا نہ ہو اس وقت تک بیٹھ سکتا ہے، اگرچہ قیام کے قریب ہو گیا ہو، اور بعض فقہاء نے کہا کہ قیام کے قریب ہو گیا ہو تو بھی نہ بیٹھے، اور حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1208
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جب کہ یہ روایت معناً اور متناً صحیح ہے۔ کیونکہ حدیث میں مذکور مسئلہ کی بابت ابوداؤد کی روایت (1036) کی تحقیق میں ہمارے محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت بھی سنداً ضعیف ہے۔ لیکن آئندہ آنے والی روایت (1037) اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ ہمارے محقق کے نزدیک بھی درست اور صحیح ہے۔ مذکورہ روایت صرف سنداً کمزور ہے۔ دیکھئے: (سنن ابوداؤد (اُردو) حدیث 1036، مطبوعہ دارالسلام) علامہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: (الصحیحة رقم: 321) نیز مسند احمد کے محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 162، 161، 101، 100/30)
(2) اس سے واضح ہوا کہ غلطی سے شروع ہوجانے والی زائد رکعات اگر شروع کرلی جائے۔ تو اسے پورا کرنا چاہیے۔
(3) بھول کرزائد رکعت پڑھی جائے تو بھی سجدہ سہو کرلینا کافی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1208
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1036
´جو شخص قعدہ میں بیٹھا ہو اور تشہد پڑھنا بھول جائے وہ کیا کرے؟` مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے پھر اگر اس کو سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو بیٹھ جائے، اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: میری کتاب میں جابر جعفی سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1036]
1036۔ اردو حاشیہ: اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ صحیح شمار کرتے ہیں جبکہ دیگر عام محدثین جابر کی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اسے ضعیف کہتے ہیں۔ یہ اپنے رافضی عقائد کی بنا پر ناقابل حجت ہے۔ [عون المبعود۔ منذري] تاہم اگلی حدیث سے اس میں بیان کردہ مسئلہ ثابت ہے۔ شوافع وغیرہ کا مذہب ہے کہ تشہد پڑھنا واجب ہے، اگر امام اور ایسے ہی منفرد بھی خاموش بیٹھا رہا اور تشہد نہ پڑھے۔ تو یاد آنے پر سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے قعدے میں لوٹ جائے اور تشہد پڑھے، یہی حق ہے۔ اور اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو کھڑا رہے۔ اور آخر میں سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1036
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1037
´جو شخص قعدہ میں بیٹھا ہو اور تشہد پڑھنا بھول جائے وہ کیا کرے؟` زیاد بن علاقہ کہتے ہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے، ہم نے ”سبحان الله“ کہا، انہوں نے بھی ”سبحان الله“ کہا اور (واپس نہیں ہوئے) نماز پڑھتے رہے، پھر جب انہوں نے اپنی نماز پوری کر لی اور سلام پھیر دیا تو سہو کے دو سجدے کئے، پھر جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، جیسے میں نے کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ابن ابی لیلیٰ نے شعبی سے، شعبی نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع قرار دیا ہے، نیز اسے ابو عمیس نے ثابت بن عبید سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر راوی نے زیاد بن علاقہ کی حدیث کے مثل روایت ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابو عمیس مسعودی کے بھائی ہیں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ویسے ہی کیا جیسے مغیرہ، عمران بن حصین، ضحاک بن قیس اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عمر بن عبدالعزیز نے اسی کا فتوی دیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو دو رکعتیں پڑھ کر بغیر قعدہ اور تشہد کے اٹھ کھڑے ہوں، انہیں چاہیئے کہ سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کریں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1037]
1037۔ اردو حاشیہ: امام صاحب کے آخری جملوں میں یہ تو صحیح ہے کہ درمیانی قعدہ بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم ہے مگر سلام کے بعد ہونے میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمل مختلف ہے، کچھ سے قبل از سلام مروی ہے اور کچھ سے بعد از سلام [عون المبعود] راحج اور افضل یہ ہے کہ قبل از سلام کئے جائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1037
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 267
´سجود سہو وغیرہ کا بیان` سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ” تم میں سے جب کسی کو دو رکعتوں میں شک پیدا ہو جائے اور (کھڑا ہو جائے) بلکہ بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے تو اسے جاری رکھے اور واپس نہ لوٹے بعد میں اسے دو سجدے سہو کے کر لینے چاہئیں اور اگر بالکل سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو نہیں۔“ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ بھی دارقطنی کے ہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 267»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب من نسي أن يتشهد وهو جالس، حديث:1036، وابن ماجه إقامة الصلوات، حديث:1208، والدارقطني:1 /379، وللحديث شاهد بمتن آخر عند الطحاوي في معاني الآثار (1 /440)، وسنده حسن، وانظر نيل المقصود:1037 فهو يغني عنه.»
تشریح: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق حفظہ اللہ نے سنداً سخت ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس حدیث کا شاہد ہے جسے امام طحاوی نے معانی الآثار میں ذکر کیا ہے جو سنداً حسن ہے‘ نیز انھوں نے لکھا ہے کہ سنن ابی داود کی حدیث (۱۰۳۷) اس سے کفایت کرتی ہے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر نمازی درمیانے تشہد میں بیٹھنا بھول جائے تو اگر تو وہ ابھی سیدھا کھڑا نہیں ہوا بلکہ بیٹھنے کی حالت کے زیادہ قریب ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے‘ یہی حق ہے اور اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو کھڑا رہے اور آخر میں سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 267