ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1086]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14038)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة 5 (233)، سنن الترمذی/المواقیت 47 (214)، مسند احمد (2/481) (صحیح)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 550
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہیں، جب تک کبائر کا ارتکاب نہیں کیا جاتا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:550]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : مَا لَمْ تُغْشَ: غشيان کا اصل معنی ”کسی کے پاس آنا ہے“ کہتے ہیں: "غَشِيَ فُلَانًا" ”فلاں کے پاس آیا“ یہاں مقصد گناہوں کا ارتکاب ہے، جس کو آگے اجتناب الکبائر، بڑے گناہوں سے بچنا سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 550
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 552
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ”پانچ نمازیں، جمعہ سے اگلے جمعہ تک، رمضان اگلے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں جب کہ انسان کبیرہ گناہوں سے بچے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:552]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان سے مختلف قسم کے گناہ اور قصور سرزد ہوتے رہتے ہیں، اس لیے مختلف گناہوں کے لیے مختلف قسم کی عبادات کفارہ بنتی ہیں، کچھ وضو سے معاف ہوتے ہیں، کچھ کا کفارہ نماز بنتی ہے اور بعض گناہ جمعہ سے معاف ہوتے ہیں، بعض کی بخشش روزے سے ہوتی ہے، اسی طرح اور عبادات ہیں، لیکن کبیرہ گناہوں کی آلودگی اور نجاست اس قدر غلیظ ہوتی ہے اور اس کے قبیح اثرات اس قدر گہرے اور پختہ ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف تو بہ واستغفار سے ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی پر خصوصی رحم فرما کر یونہی معاف کر دے، تو اس کا فضل وکرم انتہائی وسیع ہے، وہ کسی کا پابند نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ”اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے، تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں دور کر دیں گے۔ “(النِّساء: 31)