ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1048]
وضاحت: ۱؎: «متوشحًا» یعنی لپیٹے ہوئے، تو «شح» یہ ہے کہ کپڑے کا جو کنارہ داہنے کندھے پر ہو اس کو بائیں بغل کے نیچے سے لے جائے، پھر دونوں کناروں کو ملا کر سینے پر گرہ دے لے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1048
اردو حاشہ: فائده: (تَوَشُّح) سے مراد وہ طریقہ ہے۔ جو گزشتہ حدیث کے فائدہ نمبر 1 میں بیان کیا گیا ہے یا یہ کہ کپڑے کا جو کنارہ دائيں کندھے پر ہے۔ اسے بایئں بغل کے نیچے سے نکالے اور جو بایئں کندھے پر ہے۔ اسے دائيں بغل کے نیچے سے نکالے۔ پھردونوں کناروں کوملا کر سینے پر گرہ دے لے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1048
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 353
353. حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت جابر ؓ کو ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:353]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کا ظاہر میں اس باب سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ امام بخاری ؒ نے اسے یہاں اس لیے نقل کیا کہ اگلی روایت میں آنحضرت ﷺ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا صاف مذکور نہ تھا، اس میں صاف صاف مذکور ہے۔ تشریح: رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اکثر لوگوں کے پاس ایک ہی کپڑا ہوتا تھا، اسی میں وہ ستر پوشی کرکے نماز پڑھتے۔ حضرت جابرؓ نے کپڑے موجود ہونے کے باجود اسی لیے ایک کپڑے میں نماز ادا کی تاکہ لوگوں کو اس کا بھی جواز معلوم ہوجائے۔ بہت سے دیہات میں خاص طور پر خانہ بدوش قبائل میں ایسے لوگ اب بھی مل سکتے ہیں جوسرسے پیرتک صرف ایک ہی چادر یا کمبل کا تہبند وکرتا بنالیتے ہیں اور اسی سے ستر پوشی کرلیتے ہیں۔ اسلام میں ادائے نماز کے لیے ایسے سب لوگوں کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 353
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:353
353. حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت جابر ؓ کو ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:353]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صحت نماز کا مدار کپڑوں کی گنتی پرنہیں بلکہ سترہ عورۃ پر ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے حاصل ہو۔ پیش کردہ روایت میں حضرت جابر ؓ نے ایک ہی چادر میں نماز پڑھی اورسترعورۃ کے لیے انھوں نے چادر کے دونوں کناروں کو گردن پر باندھ لیا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اس کے باوجود وہ صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھتاہے تو ایساکرناجائز ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ وہ پورا لباس پہن کر نماز پڑھے، چنانچہ پہلی روایت میں حضرت جابر ؓ کا عمل بیان ہواہے۔ دوسری سے پتہ چلا کہ حضرت جابر ؓ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اس لیے تھا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھاتھا تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: کوئی آدمی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اگرچہ وہ زمین وآسمان جتنا وسیع ہو۔ محدث ابن بطال ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کی طرف اس طرح کا امتناعی حکم منسوب کیاہے۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ ساتر ہو، اگرچہ دوسرے کپڑے اس کے پاس موجود ہوں۔ (فتح الباري: 607/1) 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت جابرؓ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق روایت کرنے والے حضرت عبادہ بن ولید تھے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت (360) سے معلوم ہوتاہے کہ سعید بن حارث نے اس کے متعلق سوال کیاتھا، جبکہ صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت (370) میں ہے، ابن منکدر کہتے ہیں: ہم نے کہا: اے ابوعبداللہ! یعنی ہم نے اس کے متعلق سوا ل کیا۔ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ مختلف لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیے ہوں۔ ابن منکدر کے جواب میں حضرت جابرؓ نے فرمایا: میں نے چاہا کہ آپ جیسے جاہل مجھے اس طرح نماز پڑھتا دیکھ لیں۔ حضرت جابر ؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاتحقیق اکابر علماء پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی نظر میں ایسا کرنا حماقت اور جہالت ہے۔ حضرت جابر ؓ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے قصداً ایساکیا ہے، اس میں تمہارے اس اعتراض کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ تمھیں سوچناچاہیے تھاکہ واقف شریعت صحابی عمل کررہا ہے اور اس عمل میں عقل وقیاس کو بھی کوئی دخل نہیں، اس لیے یہ عمل خود جواز کی دلیل ہے، لیکن تم اس عمل سے مسئلہ مستنبط کرنے کی بجائے اعتراض کرنے لگے جو حماقت اور جہالت کی علامت ہے۔ (فتح الباری: 606/1) 3۔ (مشخب) کے معنی ہمارے یہاں کی متد اول تپائی نہیں، بلکہ اس سے مراد تین لکڑیاں کھڑی کرکے ان کے اوپر والے سرے جوڑ دیے جائیں اور نیچے کے سرے پھیلا دیے جائیں، جیسے سپاہی پریڈ کے میدان میں تین بندوقیں جوڑ کر کھڑی کردیتے ہیں، اس وقت لوگ لکڑی کے اس اسٹینڈ پر غسل وغیرہ کے وقت اپنے کپڑے رکھ دیتے تھے، نیز پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر مشکیزے بھی لٹکایا کرتے تھے، چرواہے بھی اسے استعمال کرتے تھے، یعنی اس پراپنا ڈول اور مشکیزہ لٹکا دیتے تھے۔ (فتح الباری: 606/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 353
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:370
370. حضرت محمد بن منکدر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت جابر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ اس وقت ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ ان کی دوسری چادر پاس ہی رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: اے ابوعبداللہ! آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں جبکہ آپ کی دوسری چادر الگ رکھی ہوئی ہے؟ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: جی ہاں! میں چاہتا ہوں کہ تم جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:370]
حدیث حاشیہ: 1۔ بعض لوگ تکمیل ہئیت کے لیے چادر اوڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہی جب عام حالات میں چادر کا استعمال زینت کی تکمیل کے لیے ضروری خیال کیا گیا ہے تو نماز میں بھی چادر کی ضرورت ہونی چاہیے۔ امام بخاری ؒ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ نماز کی صحت کا مدار کپڑوں کی گنتی یا نوعیت پر نہیں اس کی صحت کے لیے ستر پوشی کافی ہے، اگر ستر پوشی ایک ازار سے ہوجائے تو چادر کی ضرورت نہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ چادر اوڑھنے سے زینت بڑھ جاتی ہے، لیکن نماز کی صحت کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں، جیسا کہ حضرت جابر ؓ نے چادر کے ہوتے ہوئے بیان جواز کے لیے اس کے بغیر نماز ادا کی ہے۔ 2۔ باب: 9۔ میں حضرت عمر ؓ کا ایک فرمان بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی پر کشادگی فرماتا ہے تو اس وسعت کا اظہار ہوتا چاہیے۔ اس ارشاد سے وہم ہو سکتا ہے کہ شاید وسعت کی صورت میں ایک کپڑے سے نماز جائز نہ ہو۔ ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس وہم کے ازالے کے لیے اس باب کا انعقاد کیا ہو، کیونکہ اس میں وضاحت ہے کہ حضرت جابر ؓ کے پاس دوسری چادر موجود تھی، لیکن انھوں نے اس وسعت کے باوجود ایک ہی کپڑے میں نماز ادا فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ وسعت کے باوجود ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا کرنا تقوی کے خلاف نہیں۔ 3۔ حضرت جابر نے زبانی مسئلہ سمجھانے کے بجائے عملی تعلیم کا اہتمام کیا ہے، کیونکہ اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی عادت ہے کہ وہ سنن وآداب اور مستحبات کے ساتھ فرض و واجب جیسا معاملہ کرتے ہیں، حالانکہ ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا چاہیے، اس لیے حضرت جابر نے لوگوں کو تعلیم دی اس سےیہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیمی مقاصد کے پیش نظر بعض اوقات اولیٰ اور بہتر چیز کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر ؓ نے کیا، کیونکہ نماز ایک کپڑے میں پڑھنا جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ اگر زیادہ کپڑوں کی گنجائش ہو تو نماز میں انھیں استعمال کیا جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 370
الشیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ، فوائد و مسائل صحیح بخاری 370
... میں جابر بن عبداللہ انصاری کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایک کپڑا اپنے بدن پر لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، حالانکہ ان کی چادر الگ رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا اے ابوعبداللہ! آپ کی چادر رکھی ہوئی ہے اور آپ (اسے اوڑھے بغیر) نماز پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا، میں نے چاہا کہ تم جیسے جاہل لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیں، میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ [بخاري: ح 370]
سوال:
کیا آدمی کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔
جواب:
نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
محمد بن منکدر راوی کا بیان ہے کہ ایک دن میں جب جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہ ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جب کہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا: ”آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جب کہ دوسرا کپڑا بھی آپ کی پاس موجود ہے۔“ انہوں نے کہا: ”ہاں! میں چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔“ پھر فرما تے ہیں:
رايت النبى صلى الله عليه وسلم يصلي هكذا [بخاري،كتاب الصلاة، باب الصلاة بغير رداء 370] ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“
صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے:
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى ثوب واحد مشتملا به فى بيت ام سلمة، واضعا طرفيه على عاتقيه [بخاري،كتاب الصلاة،باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به] ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں نماز پڑھتے دیکھا، اس کپڑے کے دو کنارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر بندھے ہوئے تھے۔“
ہاں عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار [ابوداؤد، كتاب الصلاة باب المرأة تصلي بغير خمار 641]
علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ ”اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز دوپٹا (اوڑھنی) کے بغیر قبول نہیں کرتا۔“
یہ حدیث بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرد کی نماز ننگے سر ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیتے کہ مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی۔ حالانکہ کسی حدیث میں ایسے مذکور نہیں۔
اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں اس وقت نماز درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہو گیا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں، کیونکہ وہ یقیناًََ ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجھنے والے تھے۔ ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا: تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر اس میں سر ڈھانپنے والے کپڑوں کا نام ہی نہیں۔ [بخاري، كتاب الصلاة: باب الصلاة فى القميص والسراويل 365]
امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو تو فراخی و وسعت کے وقت بھی یہی بات سمجھ میں آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں۔ اب ان صحیح و مرفوع احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کو ترک کر کے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہرگز انصاف نہیں۔