1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الفضائل
کتاب: فضائل و مناقب کا بیان
772. باب بيان مثل ما بعث النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم من الهدى والعلم
772. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت اور علم لے کر آئے ہیں اس کی مثال
حدیث نمبر: 1471
1471 صحيح حديث أَبِي مُوسى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ، أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ وَكَانَ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً، وَلاَ تَنْبتُ كَلأَ، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقِهَ فِي دِينِ اللهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ، فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَفِي رِوَايَةٍ: وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ الْمَاءَ
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض ایسے خطوں پر بھی پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور اس کو وہ چیز نفع دے۔ جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ (یعنی اس سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا)ایک روایت میں وکان منہا طائفۃ قیلت الماء کے لفظ ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1471]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 20 باب فضل من علم وعلّم»

وضاحت: امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں اس حدیث کے معنی اور مقصود اس ہدایت کی مثال پیش کرنا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر پیغمبر بنے۔ تو جس طرح زمین کی تین انواع ہیں ایسے ہی لوگوں کی بھی تین قسمیں ہیں۔ (مرتب) (۱)… زمین کی پہلی قسم یہ ہے کہ جو بارش سے نفع اٹھاتی ہے اور سر سبز ہو جاتی ہے جب کہ پہلے ویران تھی اب گھاس اگتا ہے کھیتیاں لہلہاتی ہیں جن سے لوگ اور جانور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی پہلی قسم وہ ہے جن تک ہدایت اسلام اور علم پہنچا ہے انہوں نے اسے یاد کر لیا ہے، اپنے دل کو آباد کیا۔ خود عمل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں خود بھی نفع اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی نفع پہنچاتے ہیں۔(۲)… زمین کی دوسری قسم وہ ہے جو بارش سے بذات خود تو فائدہ نہیں اٹھاتی لیکن اس کا ایک فائدہ ہے کہ وہ پانی کو غیروں کے لیے روک لیتی ہے جس سے انسان اور جانور فائدہ اٹھاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے کہ ان کے دل تو ہدایت کو محفوظ کر لیتے ہیں لیکن ان کے پاس دور اندیشی اور فہم ثاقب نہیں ہے نہ عقل میں علم راسخ ہوتا ہے کہ وہ اس سے معانی اور مطالب کا استنباط کر سکیں۔ ان کے پاس اطاعت اور عمل میں قوت اجتہاد نہیں ہوتی پس وہ علم و ہدایت کو حفظ کر لیتے ہیں تو جب ان کے پاس کوئی تشنہ علم طالب ہدایت آتا ہے جو کہ علم سے مستفید ہونے اور فائدہ پہنچانے کے اہل ہوتا ہے ان سے یہ علم حاصل کر لیتا ہے۔ (۳)… زمین کی تیسری قسم وہ ہے جو شور زدہ زمین ہے کچھ بھی اگاتی ہے نہ پانی سے نفع اٹھاتی ہے اور نہ پانی کو روک کر جمع کر لیتی ہے کہ دوسرے اس سے مستفید ہوں۔ ایسے ہی لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جن کے پاس حافظے والے دل ہیں نہ سمجھ۔ جب علم وہدایت کو سنتے ہیں تو نہ خود فائدہ حاصل کرتے ہیں اور نہ اسے محفوظ کر کے غیروں کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ (مرتب)