حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف غزوہ کے لئے گئے دوپہر کا وقت ہوا تو آپ ایک جنگل میں پہنچے جہاں ببول کے درخت بہت تھے آپ نے گھنے درخت کے نیچے سایہ کے لئے قیام کیا اور درخت سے اپنی تلوار لٹکا دی صحابہ رضی اللہ عنہ بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لئے پھیل گئے ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکارا ہم حاضر ہوئے تو ایک بدوی آپ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص میرے پا س آیا تو میں سو رہا تھا اتنے میں اس نے میری تلوار کھینچ لی اور میں بھی بیدار ہوگیا۔ یہ میری ننگی تلوار کھینچے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا مجھ سے کہنے لگا آج مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! (وہ شخص صرف ایک لفظ سے اتنا مرعوب ہوا کہ) تلوار کو نیام میں رکھ کربیٹھ گیا اور دیکھ لو یہ بیٹھا ہوا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1470]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 32 باب غزوة المصطلق من خزاعة»