سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کا ارادہ کیا تو فرمایا: ”مجھے تین ڈھیلے لا دو۔“ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو ڈھیلے اور لید کا ٹکڑا ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ڈھیلے لے لیے اور لید کا ٹکڑا پھینک دیا۔ اور فرمایا: ”یہ پلید ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْآدَابِ الْمُحْتَاجِ إِلَيْهَا فِي إِتْيَانِ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ إِلَى الْفَرَاغِ مِنْهَا/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء، باب لا يستنحىٰ بروث، رقم الحديث: 156، سنن ترمذي: رقم: 17، سنن نسائي: 42، سنن ابن ماجه: 314، مسند احمد: 418/1»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 70
فوائد:
➊ استنجا کے لیے پانی کا استعمال افضل ہے اور اگر پانی میسر نہ ہو تو استنجا کے لیے کم از کم تین ڈھیلے یا پتھر ضروری ہیں، اس سے کم عدد طہارت کے لیے نا کافی ہے۔
➋ گدھے اور خچر سمیت غیر ماکول اللحم جانور کی لید اور گوبر نجس ہیں جس سے استنجا کرنا ممنوع ہے اور ماکول اللحم جانوروں کے گوبر سے بھی استنجاء کرنا نا جائز ہے، کیونکہ آپ نے اس کی ممانعت کی ایک علت یہ بیان کی ہے کہ یہ جنات کا کھانا ہے۔
➌ فقہ کا معروف قاعدہ ہے، «كل عام خص منه بعض» اس قاعدہ کا اطلاق اذان و اقامت پر بھی ہوتا ہے چنانچہ گذشتہ احادیث میں مذکور ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو دوہری اذان اور اکبری اقامت کا حکم دیا گیا، لیکن دوہری اذان کا اطلاق اذان کے ہر کلے پر نہیں ہوتا بلکہ اذان کے آخری دو کلمات «الله اكبر، الله اكبر» اور «لا اله الا لله» وتر اور طاق ہیں، اسی طرح اکہری اقامت کے حکم کا اطلاق اقامت کے ہر جز اور کلمہ پر نہیں ہوتا، بلکہ اقامت کے کلمات میں «قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة» دو مرتبہ کہنا شروع ہیں۔
➍ خواب میں کسی الجھے مسئلہ کی اصلاح سے وہ مسئلہ شرعی حکم کا درجہ نہیں رکھتا۔ البتہ شارع اس کی تصدیق کر دیں اور اسے شریعت کا درجہ دے دیں تو درست ہے چنانچہ اس حدیث میں صحابی کے خواب کو شریعت کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور تصدیق نے دیا ہے، لٰہذا خوابوں کی مدد سے شریعت سازی کی شرع میں قطعاََ کوئی گنجائش نہیں کیونکہ دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہو چکا ہے، اب دینی راہنمائی کے لیے کتاب و سنت ماخذ ہیں۔ کتاب و سنت کے سوا ہر راستہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 70
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 88
´جو چیز خود ناپاک ونجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی` «. . . وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الغائط، فامرني ان آتيه بثلاثة احجار، فوجدت حجرين، ولم اجد ثالثا، فاتيته بروثة، فاخذهما والقى الروثة، وقال: إنها ركس . . .» ”. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کو چلے تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کیلئے تین پتھر لے آؤں۔ مجھے دو پتھر تو مل گئے تیسرا نہ مل سکا۔ میں (مجبوراً) گوبر کا ایک خشک ٹکڑا لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر تو لے لئے اور گوبر کے خشک ٹکڑے کو دور پھینک دیا اور فرمایا ”یہ تو بذات خود پلید ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 88]
� لغوی تشریح: «بِرَوْتَةٍ» چوپائے جانور کا گوبر یا لید۔ ابن خزیمہ نے یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ وہ گدھے کی لید تھی۔ [صحيح ابن خزيمة: 39/1، حديث: 70] «رِكْسٌ»”را“ کے نیچے کسرہ ہے اور ”کاف“ ساکن ہے۔ نجاست اور گندگی و پلیدی۔ «اِئْتِنِي بِغَيْرِهَا» إتیان سے امر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد مقعد کی صفائی کے لیے تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے، خواہ صفائی تین سے کم ڈھیلوں سے حاصل ہو جائے۔ اور اگر تین سے مکمل صفائی حاصل نہ ہو تو پھر مزید بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہئے۔ (پانچ، سات علیٰ ہذا القیاس)
فوائد و مسائل: ➊ اس سے ثابت ہوا کہ جو چیز خود ناپاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ ➋ تعداد کے ساتھ صفائی بھی مشروط ہے، خواہ تعداد میں اضافہ ہی کرنا پڑے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ) ان کا نام عبداللہ ہے۔ سابقین اوّلین میں سے ہیں۔ بزرگ اور نہایت عقل مند و دانش مند فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ غزوہ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔ حضر و سفر کے ساتھی تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقرب حاصل تھا۔ ان کے مناقب و فضائل بہت زیادہ ہیں۔ مدینہ منورہ میں 32 ہجری میں فوت ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ساٹھ برس تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 88
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 156
´گوبر سے استنجاء کرنا منع ہے` «. . . أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَائِطَ، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ وَالْتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ: هَذَا رِكْسٌ . . .» ”. . . انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میں تین پتھر تلاش کر کے آپ کے پاس لاؤں۔ لیکن مجھے دو پتھر ملے۔ تیسرا ڈھونڈا مگر مل نہ سکا۔ تو میں نے خشک گوبر اٹھا لیا۔ اس کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر (تو) لے لیے (مگر) گوبر پھینک دیا اور فرمایا یہ خود ناپاک ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ يُسْتَنْجَى بِرَوْثٍ:: 156]
� تشریح: اس کو اس لیے ناپاک فرمایاکہ وہ گدھے کی لید تھی جیسا کہ امام احمد کی روایت میں تشریح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 156
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 42
´دو پتھروں سے استنجاء کرنے کی اجازت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت (پاخانے) کی جگہ میں آئے، اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم فرمایا، مجھے دو پتھر ملے، تیسرے کی میں نے تلاش کی مگر وہ نہیں ملا، تو میں نے گوبر لے لیا اور ان تینوں کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے دونوں پتھر لے لیے، اور گوبر پھینک دیا ۱؎ اور فرمایا: ”یہ «رکس»(ناپاک) ہے۔“ ابوعبدالرحمٰن النسائی کہتے ہیں: «رکس» سے مراد جنوں کا کھانا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 42]
42۔ اردو حاشیہ: ➊امام نسائی رحمہ اللہ حدیث میں مذکور لفظ «رِکْسٌ» کا مطلب بیان کر رہے ہیں، مگر یہ معنی لغت کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ ممکن ہے امام صاحب کا مطلب یہ ہو کہ لید سے استنجا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنوں کی خوراک ہے، نہ یہ کہ وہ پلید ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋سنن نسائئی کی اس حدیث میں تو یہاں اتنے ہی الفاظ ہیں مگر مسند احمد میں اس کے بعد یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ نے فرمایا: «إئتني بحجر»”ایک ڈھیلا اور لا۔“[مسند احمد: 450/1] اس سے گویا دو ڈھیلوں پر اکتفا ثابت نہ ہوا بلکہ اس سے تو تین ڈھیلوں کی شرطیت اخذ ہوتی ہے۔ اگر بالفرض بہ امر مجبوری دو یا ایک ڈھیلا ہی ہو تو انہیں بھی مختلف اطراف سے احتیاط کے ساتھ تین دفعہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [التبیان في تخریج و تبویب أحادیث بلوغ المرام: 214، 213/3]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 42
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 88
«و روث»
اور گوبر (نجس ہے)۔ گوبر
➊ جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے چلے تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے تین پتھر لے کر آؤں۔ مجھے دو پتھر ملے، تیسرا نہ مل سکا تو میں (مجبوراً) گوبر کا ایک خشک ٹکڑا لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دونوں پتھر لے لیے اور گوبر کے ٹکڑے کو دور پھینک کر فرمایا: «فإنها رکس»”یہ تو بذات خود نجس و پلید ہے۔“[بخاري 156]۱؎ (حنابلہ، مالکیہ) جانوروں کا گوبر اور پیشاب ان کے گوشت کے تابع ہے۔ یعنی جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب و گوبر پاک ہے اور جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کا پیشاب و گوبر نجس ہے۔ (انہوں نے حدیث عرنیین [بخاري 233] اور بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت والی حدیث [ترمذي 348] سے استدلال کیا ہے اور تمام ماکول اللحم جانوروں کو اونٹوں اور بکریوں پر قیاس کیا ہے۔)[بداية المجتهد 77/1]۲؎ (شافعیہ، حنفیہ) ہر جانور کا گوبر اور پیشاب مطلق طور پر نجس ہے خواہ وہ جانور ماکول اللحم ہو یا غیر ماکول اللحم۔ (انہوں نے گزشتہ حدیث «إنها ركس»[بخاري 156] اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت والی حدیث [سنن ابي داود 493] سے استدلال کیا ہے اور جانوروں کے گوبر و پیشاب کو انسان کے بول و براز پر قیاس کیا ہے)۔ [الهداية 36/1]۳؎ (راجح) گزشتہ صحیح حدیث [بخاري 156] سے صرف گوبر کی نجاست ثابت ہوتی ہے علاوہ ازیں اصل اباحت و طہارت ہے جب تک کہ کسی چیز کی نجاست نص شرعی سے نہ ثابت ہو جائے۔ (شوکانی رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ [نيل الأوطار 100/1]۴؎ ------------------ ۱؎[بخاري 156، كتاب الوضوء: باب لا يستنجي بروث، ترمذي 17، نسائي 46، بيهقي 102/1، ابو عوانة 195/1، ابن حبان 1442، أبن خزيمة 86، 85 دارمي 138/1، احمد 250/2 ابن ماجة 313، شرح معاني الآثار 123/1] ۲؎[بداية المجتهد 77/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/ 48، كشاف القناع 220/1] ۳؎[المغني 490/2، المبسوط 54/1، الهداية 36/1، المهذب 567/2] ۴؎[السيل الجرار 31/1، نيل الأوطار 100/1]
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 148
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث314
´پتھر سے استنجاء کے جواز اور گوبر اور ہڈی سے ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے اور فرمایا: ”میرے پاس تین پتھر لاؤ“، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دو پتھر اور گوبر کا ایک ٹکڑا لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لیے اور گوبر پھینک دیا، اور فرمایا: ”یہ ناپاک ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 314]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہوا کہ اگر تین ڈھیلے نہ ملیں تو دو ڈھیلوں پر بھی اکتفاء کیا جاسکتا ہے تاہم افضل یہی ہے کہ تین ڈھیلوں سے صفائی کی جائے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ تیسرا ڈھیلا آپ نے خود ڈھونڈ لیا ہو۔
(2) ساتھی یا شاگرد سے چھوٹی موٹی خدمت لینا درست ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ اس میں کراہت محسوس نہ کرتا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 314
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 17
´دو پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے تو آپ نے فرمایا: ”میرے لیے تین پتھر ڈھونڈ لاؤ“، میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا: ”یہ ناپاک ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 17]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود نا پاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں ((ائْتِنِي بِغَيْرِهَا))”اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ“ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہو جائے، اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جاسکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہئے، آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہئے۔
2؎: متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے، اس کے جاننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔
3؎: واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔
(الف) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل: زہیر، معمراور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابو اسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔
(ب) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔
(ج) اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے، ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے بر خلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج1ص28۔
صاحب تحفۃالاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) بقول امام ابو داؤد: زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں أثبت ہیں۔
(2) زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔
(3) بقول ذہبی: امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابو اسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے، علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابو عبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کوضعیف ماننا پڑے گا، جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے، اور اکثر أئمہ نے اسے صحیح ہی قرار ديا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 17
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:156
156. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم دیا، چنانچہ مجھے دو پتھر تو مل گئے۔ تلاش بسیار کے باوجود تیسرا نہ مل سکا تو میں نے (خشک) لید لی اور وہ آپ کے پاس لے آیا۔ آپ نے دونوں پتھر تو لے لیے اور لید کو پھینک دیا اور فرمایا ”یہ پلید ہے۔“امام بخاری ؓ فرماتے ہیں: اس حدیث کو ابراہیم بن یوسف نے بھی بیان کیا، وہ اپنے باپ یوسف سے، وہ ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن اسود نے بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:156]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ لید وغیرہ سے طہارت حاصل نہیں ہوتی لہٰذا انھیں استنجا کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ جو لید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھا کر لائے تھے وہ گدھے کی لید تھی اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دو چند ہو جاتی ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے جنات کو غذا میسر آتی ہے۔ اس لیے اسے بطور استنجا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک فقہی اختلاف کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ ڈھیلوں سے استنجا کا مقصد تطہیر نجاست ہے یا تقلیل نجاست؟ جن حضرات کے نزدیک تطہیر نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی یا لید وغیرہ سے استنجا نہیں ہو گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اسی طرف ہے اور جن حضرات کے نزدیک اس سے مراد تقلیل نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی اور خشک لید سے استنجا صحیح ہے اگرچہ خلاف سنت ہے۔ 2۔ استنجا کے متعلق تین باتیں قابل غور ہیں۔ 1۔ انقائے محل 2۔ تثلیث 3۔ ایتار۔ انقائے محل سے مراد بول و براز کے محل کو صاف کرنا ہے اور اس کے لیے کم ازکم تین ڈھیلے استعمال کرنا تثلیث ہے اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو طاق تعداد میں استعمال کیے جائیں اسے ایتار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ تم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم تعداد میں استنجا نہ کرے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 606(262) اور اگر تین ڈھیلوں سے انقائے محل کا مقصد حاصل نہ ہو تو تین سے زیادہ ڈھیلے استعمال ہو سکتے ہیں لیکن ان میں طاق تعداد کا لحاظ رکھنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے جب کوئی طہارت کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو طاق تعداد (وتر) کا لحاظ رکھے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 585(239) لیکن امام طحاوی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین پتھروں کی رعایت ضروری نہیں۔ اگر صفائی دو پتھروں سے ہو جائے تو کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ (شرح معاني الآثار: 73/1) یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیسرا پتھر لانے کا حکم دیا۔ (مسند احمد: 450/1) یہ صراحت دارقطنی (55/1) میں بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ طہارت کے لیے کم ازکم تین پتھر ہونے ضروری ہیں اگرچہ ایک یا دو کے استعمال سے صفائی ہو جائے جیسا کہ عدت کے لیے تین حیض کا عدد مطلوب ہے اگرچہ استبرائے رحم کا مقصد ایک مرتبہ حیض آنے سے پورا ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 337/1) ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ کے واسطے سے نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن اسود کے طریق سے ہے دراصل امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے استاد حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیا ہے انھوں نے یہ روایت بایں سند ذکر کی ہے: (اسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبيدة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) اور اس پر اعتماد کیا ہے، اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ مذکورہ روایت پر اعتراض کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت بایں سند ہے۔ (زهير عن أبي إسحاق عن عبدالرحمن بن الأسود عن الأسود) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت سند کے لحاظ سے عالی ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مرجوح قراردیا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ 1۔ زہیر اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ بلند مرتبہ ہے جیسا کہ ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ سے اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے میں زہیر اور اسرائیل کا مرتبہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: کہ زہیر، اسرائیل سے بہت زیادہ بلند مرتبہ ہے۔ 2۔ شریک قاضی اس روایت کی تائید میں زہیر متابعت کرتا ہے اور یہ متابعت قوی ہے۔ 3۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سےعمر کے اس حصے میں سماع کیا ہے جبکہ انھیں اختلاط ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے خود صراحت کی ہے کہ ابو عبیدہ نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ نہیں سنا جبکہ زہیر کا طریق متصل ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آخر میں ابراہیم بن یوسف کی متابعت ذکر کی ہے دراصل سلیمان شاذ کونی نے اس روایت کے پیش نظر ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو تدلیس کا الزام دیا ہے کہ اس روایت میں عبد الرحمٰن بن اسود سے بیان کرنے میں تحدیث یا اخبار کی صراحت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس الزام کا جواب دیا ہے کہ ابراہیم بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو انھوں نے تحدیث کے صیغے سے نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ پر تدلیس کا الزام غلط ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر مدلس سے روایت نقل کرنے کا اعتراض بھی بے بنیاد ہے۔ (فتح الباري: 338/1) 5۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے وقت استنجا فرماتے تو اس کے بعد مٹی سے مل کر ہاتھوں کو پانی سے خوب صاف کرتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 45) مٹی کے بجائے ہاتھوں کو صابن وغیرہ سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 156