الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيح ابن خزيمه
كِتَابُ: الْوُضُوءِ
وضو کے متعلق ابواب
4. (4) بَابُ ذِكْرِ حَطِّ الْخَطَايَا بِالْوُضُوءِ مِنْ غَيْرِ ذِكْرِ صَلَاةٍ تَكُونُ بَعْدَهُ
4. بغیر نماز پڑھے، صرف وضو ہی سے گناہ معاف ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 4
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا ہے، اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو پانی یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جنہیں اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ پھر جب اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اُس کے ہاتھوں سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جنہیں اُس کے ہاتھوں نے کیا تھا۔ پھر جب اپنے پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جن کی طرف اُس کے قدم چل کر گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْوُضُوءِ/حدیث: 4]
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم كتاب الطهارة، باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء رقم: 244، سنن ترمذي، رقم: 2، موطا امام مالك: 60، سنن دارمي، رقم: 718، ابن حبان رقم: 1040، من طريق احمد بن ابي بكر، البيهقى رقم: 386، من طريق ابن وهب»

   صحيح مسلمإذا توضأ العبد المسلم أو المؤمن فغسل وجهه خرج من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل يديه خرج من يديه كل خطيئة كان بطشتها يداه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل رجليه خرجت كل خطيئة مشتها رجلاه مع الماء أو مع آخر قطر الما
   جامع الترمذيإذا توضأ العبد المسلم أو المؤمن فغسل وجهه خرجت من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة بطشتها يداه مع الماء أو مع آخر قطر الماء حتى يخرج نقيا من الذنوب
   موطأ مالك رواية يحيى الليثيإذا توضأ العبد المسلم أو المؤمن فغسل وجهه خرجت من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة بطشتها يداه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل رجليه خرجت كل خطيئة مشتها رجلاه مع الماء أو مع آخر قطر الما
   صحيح ابن خزيمةإذا توضأ العبد المسلم أو المؤمن فغسل وجهه خرجت من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل يديه خرج من يديه كل خطيئة كان بطشتها يداه مع الماء أو مع آخر قطر الماء إذا غسل رجليه خرجت كل خطيئة مشتها رجلاه مع الماء أو مع آخر قطر الم

صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نمبر 4 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 4  
فوائد:
اس حدیث میں وضو کی فضیلت اور اعضائے وضو کو دھونے کی فضیلت کا بیان ہے کہ ہر عضو کو دھونے سے اس عضو کے صغیرہ گناہ محو ہو جاتے ہیں اور وضو سے فراغت کے بعد وہ صغیرہ گناہوں سے مکمل پاک ہو جاتے ہے اور اس کے بعد نماز اور دیگر اعمال صالحہ اس کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 4   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2  
´طہارت کی فضیلت کا بیان​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں ۱؎، جو اس کی آنکھوں نے کیے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 2]
اردو حاشہ:
1؎:
گناہ جھڑ جاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں،
اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔

2؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔

3؎:
بظاہر یہ ایک مشکل عبارت ہے کیونکہ اصطلاحی طور پر حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہے،
تو اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں،
سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔
(الف)
اگر حدیث کی دو یا دو سے زائد سندیں ہوں تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اور دوسری سند کے لحاظ سے صحیح ہے،
اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے یہاں صحیح ہے،
یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حسن ہے یا صحیح۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2