سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”نہیں“ اُس نے پوچھا کہ کیا میں اُن کے گوشت سے وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ اس نے عرض کی کہ کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“(پڑھ سکتے ہو) اُس نے دریافت کیا کہ کیا میں بکریوں کا گوشت (کھانے) سے وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علمائےاہل حدیث کےدرمیان کوئی اختلاف ہمیں معلوم نہیں کہ یہ حدیث بھی نقل کے اعتبار سے صحیح ہےکیونکہ اس کے روای عادل ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَحْدَاثِ الْمُوجِبَةِ لِلْوُضُوءِ/حدیث: 32]
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، سنن ابي داؤد، كتاب الطهارة، باب الوضوء من لحوم الابل رقم: 184، الترمذي، كتاب الطهارة، باب ماجاء فى الوضوء من لحوم الابل رقم: 81، وابن ماجه رقم: 494، و أحمد: 288/4، 303، اب الجارود فى المنتقى: 26، من طريق الأعمش»
أأتوضأ من لحوم الغنم قال إن شئت فتوضأ وإن شئت فلا توضأ أتوضأ من لحوم الإبل قال نعم فتوضأ من لحوم الإبل أصلي في مرابض الغنم قال نعم أصلي في مبارك الإبل قال لا
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 32
32. فوائد:
یہ احادیث دلیل ہیں کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اونٹ کے گوشت کے استعمال کے بعد نماز کے لیے وضو کرنا واجب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اکثر علماء یعنی خلفائے راشدین، ابوبکر و عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سمیت ابن مسعود، ابی بن کعب، ابن عباس، ابوالدرداء، ابو طلحہ، عامر بن ربیعہ، ابوامامہ رضی اللہ عنہم جمہور تابعین مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور اصحاب شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت ناقض وضو نہیں ہے جب کہ احمد بن حنبل، اسحٰق بن راہویہ، یحیٰی بن یحییٰ، ابوبکر بن منذر اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ حافظ ابو بکر بیہقی نے اس مذہب کو ترجیح دی ہے، محدثین سے بھی مطلقاً یہی منقول ہے اور صحابہ کی ایک جماعت سے بھی یہی قول مروی ہے۔
مؤخر الذکر علماء، جن کا موقف ہے کہ اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے، کی دلیل احادیث الباب ہیں، اگرچہ جمہور علماء کا مذہب اس کے خلاف ہے، لیکن اس کے باوجود دلیل کے اعتبار سے یہ مذہب قوی تر ہے اور جمہور علماء نے ان احادیث کے جواب میں حدیث جابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حکم آگ سے پکی چیز سے ترک وضو تھا، سے دیا ہے (کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے) یہ حدیث (جابر) عام ہے اور اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کی حدیث خاص ہے۔ لٰہذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا اونٹوں کے باڑے کے سوا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اباحت متفق علیہ مسئلہ اور اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی نہی نہی تنز یہی ہے اور اس کراہت کا سبب اونٹوں کا بدکنا اور نمازی کی نماز میں خلل ڈالنا ہے۔ [نووي: 47/4 - 48]
ماکول اللہم جانوروں کا پیشاب اور گوبر طاہر ہے۔ مالک احمد بن حنبل، عطاء، ثوری، ابن ابی لیلٰی اور ابراہیم نخفی وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ من حیث الدلیل یہ مذہب راج اور قوی تر ہے۔ [عون المعبود: 194/1]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 32
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 70
´اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے` «. . . وعن جابر بن سمرة رضى الله عنه ان رجلا سال النبى صلى الله عليه وآله وسلم:اتوضا من لحوم الغنم؟ قال: إن شئت قال: اتوضا من لحوم الإبل؟ قال: نعم . . .» ”. . . سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کیا میں بکری کا گوشت کھاؤں تو بعد میں وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر دل چاہے تو کر لو۔“ اس شخص نے پھر عرض کیا اور اونٹ کے گوشت سے؟ فرمایا ”اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیئے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 70]
� لغوی تشریح: «أَتَوَضَّأُ» ہمزہ استفہام اس جگہ محذوف ہے اور یہ واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ «مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ» بکری کا گوشت کھانے کی وجہ سے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اسے کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے۔ اکثر اصحاب حدیث کی رائے یہی ہے۔ اس کے گوشت کے ناقض وضو ہونے کی حکمت اور سبب معلوم ہونا ضروری نہیں کیونکہ تعبدی احکام کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں۔ ➋ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”اعلام الموقعین“[1؍147] میں اس کی بڑی عمدہ اور معنوی اعتبار سے بڑی معقول وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: روایات میں آیا ہے کہ ہر اونٹ کی کوہان پر شیطان ہوتا ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اونٹ جنوں میں سے ہیں اور انہیں سے پیدا کیے گئے ہیں، لہٰذا ان میں قوت شیطانیہ ہوتی ہے اور کھانے والے کی مشابہت کھانے کے ساتھ ہو گی، اس لیے جب کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھائے گا تو اس میں ازخود قوت شیطانیہ پیدا ہو گی۔ اور شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے سے بجھایا جاتا ہے۔ حدیث مذکور بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے۔ جب بندہ اونٹ کا گوشت کھا کر بعد میں وضو کرے گا تو اس کے وضو میں وہ چیز شامل ہو گی جو اس شیطانی قوت کو بجھائے گی اور ایسی صورت میں یہ فساد انگیز چیز زائل ہو جائے گی۔ ➌ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمہ اہل سنت میں اختلاف ہے۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ وغیرہ محدثین علماء کا یہی مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو برقرار نہیں رہتا۔ بیہقی اور تمام اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کسی بھی حلال جانور کے گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وضو برقرار رہتا ہے۔ ان کی دلیل ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حبان وغیرہ کی روایت ہے۔ [سنن ابي داؤد، الطهارة، باب فى ترك الوضوء ممامست النار، حديث: 187] یہ حضرات اس حدیث میں بیان ہونے والے وضو سے ہاتھ منہ دھونا مراد لیتے ہیں جس طرح خور و نوش سے فارغ ہو کر ہاتھ منہ دھویا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک وضو کے لغوی معنی مراد ہوں گے، اصطلاحی معنی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری حکم یہ ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ وغیره کا مسلک دلیل کے اعتبار سے مضبوط ہے۔ ابوداؤد وغیر کی حدیث عام ہے اور صحیح مسلم کی یہ حدیث خاص اونٹ کے بارے میں ہے، اس لیے خاص حکم، عام حکم سے مقدم ہے، نیز ایک شرعی لفظ وضو کو بلا دلیل لغوی معنی پر محمول کرنا بھی درست نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 70
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث495
´اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کا بیان۔` جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ کا گوشت کھائیں تو وضو کریں، اور بکری کا گوشت کھائیں تو وضو نہ کریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 495]
اردو حاشہ: (1) گزشتہ باب میں گوشت کھا کر وضو نہ کرنے کا بیان تھا لیکن اس میں جو واقعات ہیں وہ سب بکری کے گوشت سے متعلق ہیں جب کہ زیر مطالعہ باب کی احادیث میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ دوسری حدیث میں تو صراحت سے اونٹ اور بکری کے مسئلہ میں فرق واضح کیا گیا ہے۔
(2) بعض علماء نے اس حکم کو منسوخ قراردیا ہے کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل آگ کی پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنا تھا۔ (سنن ابي داؤد، الطهارة، باب في الترك الوضوء مما مست النار، حديث: 192 وسنن النسائي، الطهارة، باب ترك الوضوء مما غيرت النار، حديث: 185) لیکن حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث عام ہے اور زیر بحث حدیث خاص ہے، اس لیے دونوں میں تعارض نہیں۔ اونٹ کے گوشت میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل ہوگا یعنی اسے کھانے کے بعد وضو کیا جائے اور دوسرے جانوروں کے گوشت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر کہ اسے کھانے کے بعد نیا وضو کیے بغیر بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 495