حضرت محمد بن یحیٰی رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر سے کہا کہ آپ کے خیال میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاکی یا ناپاکی (با وضو ہونے یا بے وضو ہونے) کی حالت میں ہر نماز کے لیے وضو کرنا کسی سے مروی ہے؟ عبیداللہ نے فرمایا کہ انہیں اسماء بنت زید بن خطاب نے بیان کیا کہ انہیں سیدنا عبد اللہ بن حنظلہ بن ابی عامر جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا، (راوی حدیث ان کے بیٹے ہیں بذات خود نہیں) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاکی یا ناپاکی کی ہر حالت میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا اور (ہر نماز کے لیے) وضو کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساقط کر دیا گیا، سوائے اس کے کہ آپ کا وضو ٹوٹ جائے (تو پھر وضو کرنا ہو گا)۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ وہ اس کی (ہر نماز کے لیے نئے وضو کی) طاقت رکھتے ہیں چنانچہ انہوں نے موت تک ایسے ہی کیا۔ یہ یعقوب بن ابراہیم کی روایت ہے۔ محمد بن منصور کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: «وَكَانَ يَفعَلُهُ حَتَي مَاتَ» ”وہ فوت ہونے تک اسی طرح عمل کرتے رہے۔“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْوُضُوءِ/حدیث: 15]
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، سنن ابی داود، کتاب الطهارة، باب السواك، رقم الحديث: 48، مسند احمد: 225/5، رقم الحديث: 20954، الحاكم على شرط مسلم: 156/1، الدارمي رقم: 657، البيهقي، سننه الكبرى: 157، من طريق محمد بن اسحاق»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 15
فوائد:
یہ حدیث دلیل ہے کہ فتح مکہ سے قبل ہر نماز کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نیا وضو کرنا واجب تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تخفیف کر دی گئی اور بیان جواز کے لیے اسی وجوب میں نرمی کی گئی، البتہ اب بھی ہر نماز کے لیے وضو کرنا افضل و مستحب ہے اور جو شخص ہر نماز کے لیے وضو پر قادر ہو اسے نیا وضو کر کے ہی نماز پڑھنی چاہیے یہ اس کے لیے بہتر ہے لیکن قدرت و استطاعت کے باوجود کوئی شخص ایک وضو سے متعدد نمازیں ادا کر لے تو یہ مکروہ عمل نہیں، بلکہ شریعت کی رو سے یہ عمل بھی جائز و مباح ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 15
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 48
´ہر نماز کے لیے وضو` «. . . فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَى أَنَّ بِهِ قُوَّةً . . .» ”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ ان کے پاس (ہر نماز کے لیے وضو کرنے کی) قوت ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 48]
فوائد و مسائل: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عبادت کا شوق انتہائی درجے کا تھا، اسی بنا پر وہ اہتمام سے وضو کی تجدید کیا کرتے تھے جو بڑے ثواب اور فضیلت والا عمل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 48