ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے یہ بات خوش کرتی ہو کہ اسے پورا پیمانہ بھر کر دیا جائے تو وہ ہم اہل بیت پر جب درود بھیجے تو کہے: «اللهم صل على محمد النبي وأزواجه أمهات المؤمنين وذريته وأهل بيته كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد»“۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 982]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14645) (ضعیف)» (اس کے راوی حبان الکلابی میں کلام ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حبان بن يسار: ضعيف ضعفه أبو حاتم وغيره،واختلط بآخرة،وفي حديثه اختلاف أيضًا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 47
من سره أن يكتال بالمكيال الأوفى إذا صلى علينا أهل البيت فليقل اللهم صل على محمد وأزواجه أمهات المؤمنين وذريته وأهل بيته كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 982
982۔ اردو حاشیہ: ➊ «صلواة» کے معنی شروع باب میں ذکر ہو چکے ہیں۔ ➋ «آل» دراصل بمعنی ”شخص“ ہے اور اس کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کو دوسرے کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق ہو اور یہ لفظ ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے۔ ”آل نبی“ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں اور بعض کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنہیں علم معرفت کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تعلق ہو اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اہل دین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کہ علم کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں، ان کو آل نبی اور امتہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور دوسرے جن کا علم و عمل سرسری سا اور تقلیدی سا ہوتا ہے، ان کو امت محمد کہہ سکتے ہیں، آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہہ سکتے۔ اس طرح امت اور آل میں عموم خصوص کی نسبت ہے۔ یعنی ہر آل نبی آپ کی امت میں داخل ہے۔ مگر ہر امتی آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: [مفردات راغب اصفهاني] احادیث صحیحہ اور درود کے مختلف صیغوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور آل میں آل علی، آل جعفر، آل عقیل، آل عباس، اذواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد شامل ہیں۔ ➌ «كما صليت» میں معروف تشبیہ نہیں کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے مشابہ کہا گیا ہو بلکہ اس میں ایک غیر مشہور امر کو مشہور و معروف کے ساتھ ملحق کر کے اذہان کے قریب کیا گیا ہے۔ جیسے کہ اللہ کے نور کو چراغ کے نور سے مشابہت دی گئی ہے۔ «اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ»[النور 35] چونکہ ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم کی عظمت اور ان پر صلاۃ تمام طبقات میں مشہور معروف تھی۔ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اسی انداز سے صلاۃ کی عام تعلیم دی گئی۔ اس میں مقدار کا مفہوم شامل نہیں۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے۔ کہ چونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل میں انبیاء و رسل کثیر تعداد میں ہیں۔ اور ان میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں۔ تو ان سب کے لئے جس قدر صلاۃ نازل کی گئی ہے۔ اس عظیم مقدار کی صلاۃ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لئے طلب کی جا رہی ہے۔ «والله اعلم» تفصیل کے لئے دیکھیے: [مرعاة المفاتحيح۔ شرح مشكواة المصابيح باب الصلواة على النبى حديث 924]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 982