ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں نقصان اور کمی نہیں ہے اور نہ سلام میں ہے ۱؎“، احمد کہتے ہیں: جہاں تک میں سمجھتا ہوں مطلب یہ ہے کہ (نماز میں) نہ تو تم کسی کو سلام کرو اور نہ تمہیں کوئی سلام کرے اور نماز میں نقصان یہ ہے کہ آدمی نماز سے اس حال میں پلٹے کہ وہ اس میں شک کرنے والا ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 928]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13401)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/461) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سلام میں نقص نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم سلام کا مکمل جواب دو اس میں کوئی کمی نہ کرو یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ہی پر اکتفا نہ کرو بلکہ ”وبرکاتہ“ بھی کہو، ایسے ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ہی نہ کہو بلکہ ورحمۃ اللہ بھی کہو، اور نماز میں نقص کا ایک مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے پورے طور سے ادا نہ کئے جائیں، دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز میں اگر شک ہو جائے کہ تین رکعت ہوئی یا چار تو تین کو جو یقین ہے چھوڑ کر چار کو اختیار نہ کیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الثوري عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 46
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 928
اعتراض:
امام حاکم نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
تخریج الحدیث [سنن ابي داود: 928، مسند الامام احمد: 461/2، السنن الكبري للبيهقي 261/2، المستدرك للحاكم: 264/1] فقہ الحدیث ↰ یہ حدیث سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ کی ”تدلیس“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔ اگر اس کو ”صحیح“ مان بھی لیا جائے اور یہ معنی کر بھی لیا جائے کہ نماز میں نقصان اور سلام نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سلام بالتلفظ نہیں ہے۔ اشارے کے ساتھ سلام کا جواب تو صحیح احادیث، آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 929
´نماز میں سلام کا جواب دینا۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ سلام میں نقص ہے اور نہ نماز میں۔“ معاویہ بن ہشام کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سفیان نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ابن فضیل نے ابن مہدی کی طرح «لا غرار في تسليم ولا صلاة» کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کو مرفوع نہیں کہا ہے (بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول بتایا ہے)۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 929]
929۔ اردو حاشیہ: ➊ «غرار» کا لفظی معنی نقص اور کمی کرنا ہے۔ نماز میں کمی دو طرح سے ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ انسان اس کے رکوع اور سجود صحیح طور سے ادا نہ کرے، ارکان جلدی جلدی ادا کرے۔ اس سے نماز ناقص رہ جاتی ہے بلکہ ہوتی ہی نہیں۔ دوسری صورت شک ہونے کی ہے کہ مثلاً تین یا چار رکعت میں شک ہوا کہ نہ معلوم کتنی رکعت پڑھی ہیں، تو انسان سمجھے کہ بس جتنی بھی ہو گئی ہے، پوری ہو گئی ہے۔ یا وہ اسے چار رکعت ہی شمار کر لے۔ یہ کیفیت بھی نماز میں نقص ہے۔ چاہیے کہ بندہ یقین اور اعتماد سے نماز پوری پڑھے۔ یعنی اسے چار نہیں، تین رکعت شمار کر لے۔ سلام میں نقص یوں ہے کہ سلام کہنے والے کو اس کے الفاظ کا پورا پورا جواب نہ دیا جائے۔ اگر زیادہ نہیں کہتا تو اسے پورے الفاظ سے جواب دے۔ ان میں کمی نہ کرے۔ مثلاً کہنے والے نے السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ کہا ہے تو جواب میں وعلیکم السلام پر کفایت مناسب نہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ «اذاسلم عليكم المسلم فردوا عليه افضل مماسلم اور دوا عليه بمثل ماسلم فالزيادة مندو بة والمماثلة مفروضة» یعنی ”جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کہے تو اس کے سلام کا جواب اس کے سلام سے افضل الفاظ سے دو یا کم از کم اس کے سلام کے مثل جواب دو۔ افضل جواب دینا مستحب اور سلام کے مثل جواب دینا ضروری اور فرض ہے۔“[تفسير ابن كثير ج۔ 1تفسير سوره نساء۔ آيت 86] «والله اعلم» ➋ اس حدیث سے یہ استدلال کہ نمازی کو سلام نہ کہا جائے اور وہ بھی جواب نہ دے صحیح نہیں۔ کیونکہ صحیح ترین احادیث سے نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب دینے کی صراحت ثابت ہے۔ مثلاً مذکورہ بالا حدیث [927] اس لئے اس حدیث میں سلام کا جواب نہ دینے کی جو بات ہے، وہ اولاً تو اس سے منہ سے الفاظ کے ساتھ جواب نہ دینا مراد ہے۔ ثانیاً جواب دینے والی روایات قوی اور صریح ہیں۔ اس بنا پر ان کو ترجیح ہو گی۔ اور نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا صحیح ہو گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 929