الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
172. باب رَدِّ السَّلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
172. باب: نماز میں سلام کا جواب دینا۔
حدیث نمبر: 927
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، قَالَ: فَجَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ قَالَ:" يَقُولُ هَكَذَا: وَبَسَطَ كَفَّهُ، وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ، وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ، وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 927]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ الصلاة 155 (368)، (تحفة الأشراف: 2038، 8512)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/12) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
أخرجه الترمذي (368 وسنده حسن) وصححه بن الجارود (215 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (925)

   سنن النسائى الصغرىكيف كان النبي يصنع إذا سلم عليه قال كان يشير بيده
   جامع الترمذيكيف كان النبي يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو في الصلاة قال كان يشير بيده
   سنن أبي داودكيف رأيت رسول الله يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو يصلي
   بلوغ المرام كيف رايت النبي يرد عليهم حين يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال: يقول هكذا وبسط كفه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 927 کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 927  
فقہ الحدیث
↰ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔
امام ابن الجارود رحمہ اللہ (215) اور حافظ نووی رحمہ اللہ [خلاصة الاحكام: 508/1] نے صحیح قرار دیا ہے۔

«ان عطأ أن موسٰي بن عبدالله بن جميل الجمحي سلم على ابن عباس، و هو يصلي، فأ خذه بيده۔»
عطأ بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کی موسٰی بن عبداللہ بن جمیل جمحی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سلام کہا:، آپ نماز میں تھے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا (یہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب تھا۔) [الشمس الكبري للبيهقي 259/2، مصنف ابن ابي شيبة: 73/2، سنده صحيح]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث/صفحہ نمبر: 15   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 177  
´نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا`
«. . . وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قلت لبلال: كيف رايت النبي صلى الله عليه وآله وسلم يرد عليهم حين يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال: يقول هكذا وبسط كفه . . .»
. . . سیدنا (عبداللہ) ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ نماز پڑھتے وقت جب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کیسے جواب دیتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس طرح کرتے اور اپنا ہاتھ پھیلایا . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 177]
لغوی تشریح:
«يَرُدُّ عَلَيْهِمْ» علیھم میں ھم ضمیر سے اہل قباء مراد ہیں۔
«يَقُولُ هٰكَذَا» عملاً کرتے یا اشارہ فرماتے۔ قول یہاں فعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کلام عرب میں ایسا اکثر اوقات ہوتا ہے۔
«وَبَسَطَ كَفَّهُ» دراز کیا، پھیلایا۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا مشروع ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہی رائے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو نماز میں سلام کا جواب دینا ممنوع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں جواب دینا جائز تھا۔ بعد میں جب نماز کی حالت میں گفتگو اور کلام کرنا حرام کر دیا گیا تو اسی وقت سے سلام کا جواب بھی حرام ہو گیا۔ اور اس لیے کہ یہ اشارہ معنوی کلام ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اس موقع کی بات ہوتی جبکہ نماز میں سلام کا جواب جائز تھا تو پھر اشارے سے سلام کے جواب کی کیا ضرورت تھی؟
➋ گفتگو کی ممانعت اور اشارے سے سلام کا جواب تو اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز میں بات چیت کرنا حرام تھا اس وقت اشارے سے جواب جائز تھا۔ صحیح بات یہی ہے کہ بلا ریب و تردد نماز کی حالت میں اشارے سے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔
➌ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے نمازی کے لیے نماز میں مصروف نمازیوں کو سلام کرنا درست اور جائز ہے، البتہ جواب کلام سے نہیں بلکہ اشارے سے دیا جائے گا۔
➍ اس اشارے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں مسند أحمد میں سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اور جامع الترمذی میں سیدنا ابن عمر کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے تھے۔ دیکھے [مسند أحمد 102، و جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فى الإشارة فى الصلاة، حديث: 368]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 177