الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
144. باب النُّهُوضِ فِي الْفَرْدِ
144. باب: پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 842
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: جَاءَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ، وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي قِلَابَةَ: كَيْفَ صَلَّى؟ قَالَ: مِثْلَ صَلَاةِ شَيْخِنَا هَذَا، يَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلَمَةَ إِمَامَهُمْ، وَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ" إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْآخِرَةِ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى قَعَدَ، ثُمَّ قَامَ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا، میرے پیش نظر نماز پڑھانا نہیں بلکہ میں تم لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی؟ تو ابوقلابہ نے کہا: ہمارے اس شیخ- یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، جو ان کے امام تھے اور ابوقلابہ نے ذکر کیا کہ ابوقلابہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو (تھوڑی دیر) بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 842]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 127 (802)، 142 (823)، (تحفة الأشراف: 11185)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 101 (287)، سنن النسائی/الافتتاح 181 (1152)، مسند احمد (3/436، 5/53) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت: اس بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں، جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ موٹاپے اور کبر سنی کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا، لیکن یہ تاویل بلا دلیل ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جلسہ استراحت کو اس امر پر محمول کرنا کہ یہ حاجت کی بنا پر تھا عبادت کی غرض سے نہیں ؛ لہٰذا یہ مشروع نہیں ہے- جیسا کہ احناف وغیرہ کا قول ہے- باطل ہے اور اس کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ دس صحابہ رضی اللہ عنھم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز میں داخل کرنے کو تسلیم کیا ہے، اگر انہیں یہ علم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضرورت کی بنا پر کیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز میں اسے داخل کرنے پر خاموشی اختیار نہ کرتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (677)

   صحيح البخارييجلس إذا رفع رأسه من السجود قبل أن ينهض في الركعة الأولى
   سنن أبي داودرفع رأسه من السجدة الآخرة في الركعة الأولى قعد ثم قام
   سنن أبي داودقعد في الركعة الأولى حين رفع رأسه من السجدة الآخرة
   سنن النسائى الصغرىقعد في الركعة الأولى حين رفع رأسه من السجدة الآخرة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 842 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 842  
842۔ اردو حاشیہ:
پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد قیام سے پہلے ذرا سا بیٹھنے کو عرفاً جلسہ استراحت کہتے ہیں۔ یہ جلسہ تعبد ہے اور سنت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 842   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 677  
677. حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس مسجد میں ایک دفعہ حضرت مالک بن حویرث ؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں، حالانکہ میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں وہ طریقہ بتاؤں جس طریقے سے نبی ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ (راوی حدیث ایوب نے کہا:) میں نے ابوقلابہ سے سوال کیا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ ابوقلابہ نے جواب دیا: ہمارے اس بزرگ (عمرو بن سلمہ) کی طرح۔ ہمارے وہ بزرگ جب پہلی رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تو کھڑے ہونے سے پہلے ذرا بیٹھ جایا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:677]
حدیث حاشیہ:
دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔
اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔
قال الحافظ في الفتح و فیه مشروعیة جلسة الاستراحة و أخذ بها الشافعي و طائفة من أهل الحدیث یعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔
مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے:
یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔
ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔
(تفہیم البخاری، ص: 81)
آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔
چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔
جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔
پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔
ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔
صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں:
''اعْلَمْ أَنَّ أَكْثَرَ أَصْحَابِنَا الْحَنَفِيَّةِ وَكَثِيرًا مِنَ الْمَشَايِخِ الصُّوفِيَّةِ قَدْ ذَكَرُوا فِي كَيْفِيَّةِ صَلَاةِ التَّسْبِيحِ الْكَيْفِيَّةَ الَّتِي حَكَاهَا التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاكِمُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْخَالِيَةَ عَنْ جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَالشَّافِعِيَّةُ وَالْمُحَدِّثُونَ أَكْثَرُهُمُ اخْتَارُوا الْكَيْفِيَّةَ الْمُشْتَمِلَةَ عَلَى جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَقَدْ عُلِمَ مِمَّا أَسْلَفْنَا أَنَّ الْأَصَحَّ ثُبُوتًا هُوَ هَذِهِ الْكَيْفِيَّةُ فَلْيَأْخُذْ بِهَا مَنْ يُصَلِّيهَا حَنَفِيًّا كَانَ أَوْ شَافِعِيًّا۔
'' (تحفة الأحوذي، ص: 237 بحوالہ کتاب الآثار المرفوعة)
یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔
جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔
جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔
محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں۔
قد اعتذر الحنفیة وغیرهم من لم یقل بجلسة الاستراحة عن العمل بحدیث مالك بن الحویرث المذکور في الباب بأعذار کلها باردة (تحفة الأحوذي)
یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے (اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے)
پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔
(مزید تفصیل کے لیے تحفة الأحوذي کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 677   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:677  
677. حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس مسجد میں ایک دفعہ حضرت مالک بن حویرث ؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں، حالانکہ میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں وہ طریقہ بتاؤں جس طریقے سے نبی ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ (راوی حدیث ایوب نے کہا:) میں نے ابوقلابہ سے سوال کیا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ ابوقلابہ نے جواب دیا: ہمارے اس بزرگ (عمرو بن سلمہ) کی طرح۔ ہمارے وہ بزرگ جب پہلی رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تو کھڑے ہونے سے پہلے ذرا بیٹھ جایا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:677]
حدیث حاشیہ:
اگر لوگوں کو مسنون طریقہ سکھانے کے لیے ان کے سامنے نماز پڑھی جائے تو وہ غیراللہ کے لیے نہیں ہوگی اور نہ اسے ریاکاری کہا جا سکتا ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔
اسی طرح حضرت مالک بن حویرث ؓ نے فرمایا کہ میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں، اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ وہ ثواب کی نیت سے نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ وہ تو انھیں اس وقت نماز پڑھنے کا سبب بتلا رہے تھے کہ میں تعلیم کی نیت سے نماز پڑھ کر تمھیں دکھا رہا ہوں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 824)
(2)
حضرت مالک بن حویرث ؓ یہ سمجھتے تھے کہ قول کی نسبت عمل سے تعلیم دینا زیادہ مناسب اور فائدہ مند ہے، چنانچہ ایسا کرنا "شرك في العبادة" نہیں بلکہ شریعت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔
(فتح الباري: 212/2)
مذید برآں اس حدیث سے جلسۂ استراحت کا بھی ثبوت ملتا ہے اور اس سے مراد پہلی اور تیسری رکعت کے سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے پہلے ذرا سا بیٹھنا ہے۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
إن شاءالله
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 677