الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
45. بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ وَهْوَ لاَ يُرِيدُ إِلاَّ أَنْ يُعَلِّمَهُمْ صَلاَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُنَّتَهُ:
45. باب: کوئی شخص صرف یہ بتلانے کے لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیوں کر پڑھا کرتے تھے اور آپ کا طریقہ کیا تھا نماز پڑھائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 677
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ:" جَاءَنَا مَالِكُ بْن الْحُوَيْرِثِ فِي مَسْجِدِنَا هَذَا، فَقَالَ: إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ، وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ أُصَلِّي، كَيْفَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي؟ فَقُلْتُ: لِأَبِي قِلَابَةَ، كَيْفَ كَانَ يُصَلِّي؟ قَالَ: مِثْلَ شَيْخِنَا هَذَا، قَالَ: وَكَانَ شَيْخًا يَجْلِسُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ قَبْلَ أَنْ يَنْهَضَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مالک بن حویرث (صحابی) ایک دفعہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاؤں گا اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا کہ انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ ہمارے شیخ (عمر بن سلمہ) کی طرح۔ شیخ جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 677]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارييجلس إذا رفع رأسه من السجود قبل أن ينهض في الركعة الأولى
   سنن أبي داودرفع رأسه من السجدة الآخرة في الركعة الأولى قعد ثم قام
   سنن أبي داودقعد في الركعة الأولى حين رفع رأسه من السجدة الآخرة
   سنن النسائى الصغرىقعد في الركعة الأولى حين رفع رأسه من السجدة الآخرة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 677 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 677  
حدیث حاشیہ:
دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔
اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔
قال الحافظ في الفتح و فیه مشروعیة جلسة الاستراحة و أخذ بها الشافعي و طائفة من أهل الحدیث یعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔
مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے:
یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔
ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔
(تفہیم البخاری، ص: 81)
آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔
چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔
جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔
پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔
ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔
صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں:
''اعْلَمْ أَنَّ أَكْثَرَ أَصْحَابِنَا الْحَنَفِيَّةِ وَكَثِيرًا مِنَ الْمَشَايِخِ الصُّوفِيَّةِ قَدْ ذَكَرُوا فِي كَيْفِيَّةِ صَلَاةِ التَّسْبِيحِ الْكَيْفِيَّةَ الَّتِي حَكَاهَا التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاكِمُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْخَالِيَةَ عَنْ جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَالشَّافِعِيَّةُ وَالْمُحَدِّثُونَ أَكْثَرُهُمُ اخْتَارُوا الْكَيْفِيَّةَ الْمُشْتَمِلَةَ عَلَى جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَقَدْ عُلِمَ مِمَّا أَسْلَفْنَا أَنَّ الْأَصَحَّ ثُبُوتًا هُوَ هَذِهِ الْكَيْفِيَّةُ فَلْيَأْخُذْ بِهَا مَنْ يُصَلِّيهَا حَنَفِيًّا كَانَ أَوْ شَافِعِيًّا۔
'' (تحفة الأحوذي، ص: 237 بحوالہ کتاب الآثار المرفوعة)
یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔
جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔
جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔
محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں۔
قد اعتذر الحنفیة وغیرهم من لم یقل بجلسة الاستراحة عن العمل بحدیث مالك بن الحویرث المذکور في الباب بأعذار کلها باردة (تحفة الأحوذي)
یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے (اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے)
پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔
(مزید تفصیل کے لیے تحفة الأحوذي کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 677   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:677  
حدیث حاشیہ:
اگر لوگوں کو مسنون طریقہ سکھانے کے لیے ان کے سامنے نماز پڑھی جائے تو وہ غیراللہ کے لیے نہیں ہوگی اور نہ اسے ریاکاری کہا جا سکتا ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔
اسی طرح حضرت مالک بن حویرث ؓ نے فرمایا کہ میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں، اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ وہ ثواب کی نیت سے نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ وہ تو انھیں اس وقت نماز پڑھنے کا سبب بتلا رہے تھے کہ میں تعلیم کی نیت سے نماز پڑھ کر تمھیں دکھا رہا ہوں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 824)
(2)
حضرت مالک بن حویرث ؓ یہ سمجھتے تھے کہ قول کی نسبت عمل سے تعلیم دینا زیادہ مناسب اور فائدہ مند ہے، چنانچہ ایسا کرنا "شرك في العبادة" نہیں بلکہ شریعت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔
(فتح الباري: 212/2)
مذید برآں اس حدیث سے جلسۂ استراحت کا بھی ثبوت ملتا ہے اور اس سے مراد پہلی اور تیسری رکعت کے سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے پہلے ذرا سا بیٹھنا ہے۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
إن شاءالله
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 677   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 842  
´پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان۔`
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا، میرے پیش نظر نماز پڑھانا نہیں بلکہ میں تم لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی؟ تو ابوقلابہ نے کہا: ہمارے اس شیخ- یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، جو ان کے امام تھے اور ابوقلابہ نے ذکر کیا کہ ابوقلابہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو (تھوڑی دیر) بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 842]
842۔ اردو حاشیہ:
پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد قیام سے پہلے ذرا سا بیٹھنے کو عرفاً جلسہ استراحت کہتے ہیں۔ یہ جلسہ تعبد ہے اور سنت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 842