ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو (نماز کے لیے) کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك»”یعنی اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہم تیری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، تیرا نام بابرکت اور تیری ذات بلند و بالا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں“ پھر تین بار «لا إله إلا الله» کہتے، پھر تین بار «الله أكبر كبيرا» کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» پھر قرآن کی تلاوت کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حدیث علی بن علی سے بواسطہ حسن مرسلاً مروی ہے اور یہ وہم جعفر کا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 775]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الصلاة 65 (242)، سنن النسائی/الافتتاح 18 (901)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 1 (804)، (تحفة الأشراف: 4252)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/50، 69)، سنن الدارمی/الصلاة 33 (1275) (صحیح)» (یہ حدیث اور اگلی حدیث متابعات وشواہد سے تقویت پاکر صحیح ہیں، ورنہ خود ان کی سندوں میں کچھ کلام ہے جسے مؤلف نے بیان کر دیا ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1217) أخرجه الترمذي (242 وسنده حسن) وابن ماجه (804 وسنده حسن) وصححه ابن خزيمة (467 وسنده حسن)
سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك و جدك ولا إله غيرك لا إله إلا الله ثلاثا ثم يقول الله أكبر كبيرا ثلاثا أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه ثم يقرأ
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 775
775۔ اردو حاشیہ: ➊ ثنا میں پڑھی جانے والی یہ مشہور و معروف دعا ہے۔ جو کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ آئمہ متقدمین نے اس کی سند میں بحث کی ہے، جو اس کے قدرے کمزور ہونے کا اشارہ ہے۔ مگر اس کے مباح ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ ➋ نماز میں تعوذ پڑھنے کا بھی ثبوت ہے کہ ثناء کے بعد اور قرأت سے پہلے «اعوذ بالله» پڑھنا سنت ہے۔ ➌ اس دعا کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفل نمازوں کے اندر آیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 775
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 214
´نماز مین تکبیر تحریمہ کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے دعا` «. . . وعن عمر رضي الله عنه انه كان يقول: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك . . .» ”. . . سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ (وقفہ کے دوران میں) «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» پڑھتے تھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 214]
� لغوی تشریح: «وَبِحَمْدِكَ» تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتا ہوں۔ «وَتَعَالَى جَدُّكَ» تیری عظمت و کبریائی بلند و بالا ہے۔ «مَوْصُولًا» یعنی یہ حدیث متصل سند کے ساتھ مروی ہے، اس میں کسی قسم کا انقطاع نہیں ہے۔ «وَهُوَ مَوْقُوفٌ» یعنی سنن دار قطنی کی یہ حدیث بھی مسلم کی حدیث کی طرح موقوف ہے، مرفوع نہیں۔ «نَحْوُهُ» یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی طرح۔ «وَفِيهِ» سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں۔ «الرَّجِيم» مردود، ذلیل، دھتکارا ہوا۔ «مِنْ هَمَزِهٖ» اس کے جنون سے، یعنی اس سے اللہ کی پناہ کہ وہ مجنون بنا دے۔ اس سے شیطان کی وسوسہ اندازی مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے۔ «وَنَفَخِه» اس کے تکبر سے، یعنی اس تکبر و نخوت سے اللہ کی پناہ جو وہ لوگوں کے دماغوں میں بھر دیتا ہے اور وہ لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں برتر اور بڑا سمجھنے لگتے ہیں گویا ان کے دماغوں میں کبر و غرور کی ہوا بھر دیتا ہے۔ «وَنَفْثِهِ» اس کے شعر سے، یعنی اس کے اشعار سے اللہ کی پناہ۔ اس سے وہ مذموم اشعار مراد ہیں جن کو وہ لوگوں کے دماغوں میں ڈالتا ہے، اور جادو بھی اس سے مراد لیا جا سکتا ہے۔ ان تینوں کلمات کا پہلا حرف مفتوح اور دوسرا ساکن ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ تکبیر تحریمہ کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے «اَللّٰهُمَّ بَاعِدْ . . . إلخ» والی دعا ثابت ہے۔ ➋ روایات کے مطابق «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِي . . . إلخ» والی دعا اور «سُبْحَانَكَ اَللّٰهُمَّ . . . إلخ» دونوں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ «سُبْحَانَكَ اَللّٰهُمَّ» والی دعا مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح ثابت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ دعا موقوفاً مروی ہے جبکہ سیدنا ابوسعید خدری، سیدہ عائشہ صدیقہ، سیدنا انس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً بھی ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دعا مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی مفصل [أصل صفة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم] میں تمام احادیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے موقوف اثر کے بارے میں لکھا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی تعلیم کے لیے اس دعا کو بآواز بلند پڑھا کرتے تھے تاکہ سننے والے لوگ اسے سیکھ لیں اور یاد کر لیں، چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اس دعا کو تعلیم کے لیے بآواز بلند پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سنت نبوی ہے۔ خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ممکن نہیں کہ استفتاح کی اس قدر دعائیں ہونے کے باوجود اپنی طرف سے کوئی دعا پڑھیں۔ اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خاموش رہنا بھی اس کا مؤید ہے۔ «والله أعلم» تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: [أصل صفة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم: 257/1، والقول المقبول، ص: 346۔ 350] ہمارے فاضل محقق زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی شواہد کی وجہ سے اسے قابل عمل قرار دیا ہے، لہٰذا اس دعائے استفتاح کا پڑھنا بھی صحیح ہے، گو درجات حدیث میں اس کا تیسرا نمبر ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے۔ ➌ سورہ فاتحہ کے شروع کرنے سے پہلے قرآن مجید کی موافقت کرتے ہوئے «أَعُوْذُ بِاللهِ . . . إلخ» کے پڑھنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے، اس لیے مذکورہ تعوذ پڑھنا ضروری ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 214
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 900
´نماز شروع کرنے اور قرأت کرنے کے بیچ کی ایک اور دعا کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کہتے: «سبحانك اللہم وبحمدك تبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك»”اے اللہ! تو (شرک اور تمام عیبوں سے) پاک ہے، اور لائق حمد ہے، تیرا نام بابرکت ہے، اور تیری شان بلند و بالا ہے، اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 900]
900 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث کے بعض طرق میں بھی رات کے نفل کا ذکر ہے۔ گویا دوسری دعاؤں کی طرح اس دعا کو بھی فرض اور نفل دونوں نمازوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔ ➋ بعض محدثین نے اس حدیث کی اسنادی حیثیت پر کلام کیا ہے مگر کثرت طرق کی بنا پر قابل عمل ہے، علاوہ ازیں مختصر ہے۔ الفاظ مقام و محل کے بہت مناسب ہیں، اس لیے عوام الناس کا اس پر عمل ہے۔ احناف نے اس اختصار اور الفاظ کی عمدگی کے باعث اس دعا ہی کو اختیار کیا ہے، خصوصاً فرض نمازوں کے لیے اور باقی منقول دعاؤں کو وہ نوافل سے خاص کرتے ہیں مگر اس تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ سب دعائیں جائز ہیں، فرض نماز ہو یا نفل۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود (اردو) الصلاۃ، حدیث: 775، 776 کے فوائدومسائل۔ طبع دارالسلام]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 900
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث804
´نماز شروع کرنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے: «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك»”اے اللہ! تو پاک ہے اور سب تعریف تیرے لیے ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 804]
اردو حاشہ: فائدہ: تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھنے کےلئے رسول اللہ ﷺ سے متعدد دعایئں مروی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دعا پڑھی جا سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ کبھی کوئی دُعا پڑھی جائے۔ کبھی کوئی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 804
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 242
´نماز شروع کرتے وقت کون سی دعا پڑھے؟` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «اللہ اکبر» کہتے، پھر «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك»”اے اللہ! پاک ہے تو ہر عیب اور ہر نقص سے، سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان، اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ پڑھتے پھر «الله أكبر كبيرا»”اللہ بہت بڑا ہے“ کہتے پھر «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه»”میں اللہ سمیع و علیم کی شیطان مردود سے، پناہ چاہتا ہوں، اس کے وسوسوں سے، اس کے کبر و نخوت سے اور اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 242]
اردو حاشہ: 1؎: دعاء استفتاح کے سلسلہ میں سب سے زیادہ صحیح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ((اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاي..... الخ)) ہے کیونکہ اس کی تخریج بخاری اور مسلم دونوں نے کی ہے، پھر اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی روایت ((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ.....الخ)) ہے اس لیے کہ اس کی تخریج مسلم نے کی ہے، بعض لوگوں نے اس روایت کے سلسلہ میں یہ کہا ہے کہ امام مسلم نے اس کی تخریج صلاۃ اللیل میں کی جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ دعا صلاۃِ تہجد کے لیے مخصوص ہے اور فرض نماز میں یہ مشروع نہیں، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مسلم میں صلاۃ اللیل میں دو طریق سے منقول ہے لیکن کسی میں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ یہ دعا آپ صرف تہجد میں پڑھتے تھے، اور امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں تین طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی نہیں ہے کہ آپ تہجد میں اسے پڑھتے تھے، اس کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے تھے، ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں اسے دو طریق سے نقل کیا ہے، ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ تہجد میں پڑھتے تھے، بلکہ اس کے برعکس ایک میں یہ ہے کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس وقت یہ دعا پڑھتے، اسی طرح دار قطنی کی ایک روایت میں ہے کہ جب فرض نماز شروع کرتے تو ((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ)) پڑھتے، ان احادیث کی روشنی میں یہ قول کہ ”یہ نفلی نماز کے ساتھ مخصوص ہے“ صحیح نہیں ہے۔
2؎: اس حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی مذکور دعاء اور عمر بن الخطاب وابن مسعود رضی اللہ عنہم والی دعا میں فرق یہ ہے کہ ابو سعید والی میں ذرا اضافہ ہے جیسے ((اَللهُ أَكْبَرُ كَبِيْراً)) اور ((أَعُوْذُ بِاللهِ...مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ)) جبکہ عمر رضی اللہ عنہ والی میں یہ اضافہ نہیں ہے اور سند اور تعامل کے لحاظ سے یہی زیادہ صحیح ہے۔
نوٹ: (یہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اگلی حدیث دونوں کی سندوں میں کچھ کلام ہے اس لیے یہ دونوں حدیثیں متابعات و شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 242