عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بالغ ہونے کے قریب ہو چکا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں صف کے بعض حصے کے آگے سے گزرا، پھر اترا تو گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، اور صف میں شریک ہو گیا، تو کسی نے مجھ پر نکیر نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ قعنبی کے الفاظ ہیں اور یہ زیادہ کامل ہیں۔ مالک کہتے ہیں: جب نماز کھڑی ہو جائے تو میں اس میں گنجائش سمجھتا ہوں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 715]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم 18 (76)، والصلاة 90 (493)، والأذان 161 (861)، وجزاء الصید 25 (1857)، والمغازي 77 (4412)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (504)، سنن الترمذی/الصلاة 140 (337)، سنن النسائی/القبلة 7 (753)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 38 (947)، (تحفة الأشراف: 5834)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة 11(38)، مسند احمد (1/219، 264، 337، 365)، سنن الدارمی/الصلاة 129(1455) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (493) صحيح مسلم (504)
أقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
جئت أنا والفضل على أتان ورسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فمررنا على بعض الصف فنزلنا فتركناها ترتع، ودخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة فلم يقل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا