ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رات کو یا دن کو سو کر اٹھتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 57]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 17819)، مسند احمد (6/121، 160) (حسن) دون قوله: ’’ولا نهار‘‘»
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله ولا نهار
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف علي بن زيد بن جدعان ضعيف (تقدم: 54) والجمھور علي تضعيفه وأم محمد لم أجد من وثقھاوھي مجهولة وانظر الحديث الآتي (4898) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 15
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 57
فوائد و مسائل: ➊ یہ روایت ضعیف ہے اور بعض کے نزدیک «ولا نهار» کے الفاظ ثابت نہیں۔ (یعنی سو کر اٹھنے کے بعد یہ اہتمام صرف رات کو کرتے تھے)۔ ➋ مسواک کرنے کے بہت سے فائدے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ مسواک اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ اور اس سے منہ بھی پاک صاف ہو جاتا ہے، جیسا کہ کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ «السواك مطهرة للفم مرضاة للرب»[سنن نسائي، حديث: 5]” مسواک، منہ کو پاک صاف کرنے والی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔“ ➌ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہےکہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کام کرنے ہی سے اس کی رضامندی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا مسواک کرتے وقت یہی نیت اور ارادہ ہو کہ اس سے ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔ اطباء اور ڈاکٹر حضرات نے بھی اس کے بہت سے فائدے ذکر کیے ہیں۔ ➍ مسواک کرنے سے منہ اور حلق کی آلائشیں بکثرت زائل اور ختم ہو جاتی ہیں۔ مسواک صرف دانتوں ہی تک محدود نہ رکھی جائے بلکہ زبان اور حلق کے قریب تک کی جائے، خصوصاً صبح سو کر اٹھنے پر اسی طرح کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سو کر بیدار ہوتے تو مسواک کرتے، اور اس میں مبالغہ کرتے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے عَا عاَ، اُع اُع، اور اہ اہ کی آواز یں نکلتیں۔ ➎ ہمارے پیش نظر یہ بات ہونی چائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسواک کا اہتمام و التزام کیا ہے، نیز امت کو بھی اسی قدر تاکید فرمائی ہےاور اگر امت پر مشقت اور بارگراں کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر وضو اور ہر نماز کے وقت ضرور ی قرار دیتے۔ ➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ کی ذرا سی بو کو بھی پسند نہ کرتے تھے اسی لیے سو کر اٹھتے تو فوراً مسواک کرتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 57
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1720
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعات پڑھتے تھے، اس میں پانچ وتر ہوتے تھے، جن میں آپﷺ صرف آخری رکعت میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1720]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کی مختلف صورتیں ثابت ہیں آپﷺ کا عام معمول یہی تھا کہ آپﷺ وتر سمیت گیارہ رکعت پڑھتے تھے لیکن بعض دفعہ مصروفیت، مرض، نیند یا تکلیف کے سبب اس میں کمی بیشی کی ہے۔ آخری عمر میں سن رسیدہ ہونے کی بنا پر بھی آپﷺ نے کمی کی ہے اس لیے آپﷺ سے سات، نو، گیارہ، تیرہ رکعات ثابت ہیں، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے آپﷺ کی رات کی نماز کی آٹھ شکلیں بیان فرمائی ہیں۔ وتر آپﷺ نے کبھی آخر میں ایک ہی پڑھا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بہتر طریقہ یہی ہے کہ آخر میں ایک ہی وتر پڑھا جائے اور آپﷺ نے ایک سلام سے درمیان میں بیٹھے بغیر تین وتر بھی پڑھے ہیں اور پانچ بھی جن میں آپﷺ صرف پانچویں رکعت پر بیٹھے ہیں سات وتر بھی پڑھے ہیں جن میں آپﷺ چھٹی رکعت پر بیٹھے لیکن سلام ساتویں رکعت پر بیٹھ کر پھیرتے اس طرح نو وتر پڑھے ہیں آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر سلام نوویں رکعت پر پھیرا ہے یہ ساری ہی صورتیں جائز ہیں۔ احناف کے نزدیک وتر کی صرف ایک صورت ہے کہ وتر تین ہیں اور ان کو مغرب کی طرح دو تشہدوں سے پڑھا جائے گا حالانکہ صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں جس کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ، نے صحیح قرار دیا ہے اس صورت سے منع کیا گیا ہے۔