الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
17. باب صَلاَةِ اللَّيْلِ وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلاَةٌ صَحِيحَةٌ:
17. باب: نماز شب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل میں رکعتوں کی تعداد، وتر کے ایک ہونے کا بیان اور اس بات کا بیان کہ ایک رکعت صحیح نماز ہے۔
حدیث نمبر: 1720
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح، وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَا ".
عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی اور کہا: ہمیں اپنے ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں سے پانچ رکعتوں کے ذریعے وتر (ادا) کرتے تھے، ان میں آخری رکعت کے علاوہ کسی میں بھی تشہد کے لئے نہ بیٹھتے تھے۔ (بعض راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول ہوتا)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات پڑھتے تھے، اس میں پانچ وتر ہوتے تھے، جن میں آپصلی اللہ علیہ وسلم صرف آخری رکعت میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 737
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   سنن أبي داودلا يرقد من ليل ولا نهار فيستيقظ إلا تسوك قبل أن يتوضأ
   جامع الترمذيصلاة النبي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء منهن إلا في آخرهن فإذا أذن المؤذن قام فصلى ركعتين خفيفتين
   صحيح مسلميصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء إلا في آخرها
   سنن أبي داوديصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر منها بخمس لا يجلس في شيء من الخمس حتى يجلس في الآخرة فيسلم
   سنن أبي داوديصلي ثلاث عشرة ركعة بركعتيه قبل الصبح يصلي ستا مثنى مثنى ويوتر بخمس لا يقعد بينهن إلا في آخرهن
   مسندالحميديأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يوتر بخمس لا يجلس إلا في آخرهن

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1720 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1720  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کی مختلف صورتیں ثابت ہیں آپﷺ کا عام معمول یہی تھا کہ آپﷺ وتر سمیت گیارہ رکعت پڑھتے تھے لیکن بعض دفعہ مصروفیت،
مرض،
نیند یا تکلیف کے سبب اس میں کمی بیشی کی ہے۔
آخری عمر میں سن رسیدہ ہونے کی بنا پر بھی آپﷺ نے کمی کی ہے اس لیے آپﷺ سے سات،
نو،
گیارہ،
تیرہ رکعات ثابت ہیں،
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے آپﷺ کی رات کی نماز کی آٹھ شکلیں بیان فرمائی ہیں۔
وتر آپﷺ نے کبھی آخر میں ایک ہی پڑھا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بہتر طریقہ یہی ہے کہ آخر میں ایک ہی وتر پڑھا جائے اور آپﷺ نے ایک سلام سے درمیان میں بیٹھے بغیر تین وتر بھی پڑھے ہیں اور پانچ بھی جن میں آپﷺ صرف پانچویں رکعت پر بیٹھے ہیں سات وتر بھی پڑھے ہیں جن میں آپﷺ چھٹی رکعت پر بیٹھے لیکن سلام ساتویں رکعت پر بیٹھ کر پھیرتے اس طرح نو وتر پڑھے ہیں آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر سلام نوویں رکعت پر پھیرا ہے یہ ساری ہی صورتیں جائز ہیں۔
احناف کے نزدیک وتر کی صرف ایک صورت ہے کہ وتر تین ہیں اور ان کو مغرب کی طرح دو تشہدوں سے پڑھا جائے گا حالانکہ صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں جس کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ،
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ،
نے صحیح قرار دیا ہے اس صورت سے منع کیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1720   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 57  
´آدمی رات کو اٹھے تو مسواک کرے`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرْقُدُ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ فَيَسْتَيْقِظُ، إِلَّا تَسَوَّكَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ . . .»
. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رات کو یا دن کو سو کر اٹھتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کرتے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 57]
فوائد و مسائل:
➊ یہ روایت ضعیف ہے اور بعض کے نزدیک «ولا نهار» کے الفاظ ثابت نہیں۔ (یعنی سو کر اٹھنے کے بعد یہ اہتمام صرف رات کو کرتے تھے)۔
➋ مسواک کرنے کے بہت سے فائدے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ مسواک اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ اور اس سے منہ بھی پاک صاف ہو جاتا ہے، جیسا کہ کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ «السواك مطهرة للفم مرضاة للرب» [سنن نسائي، حديث: 5] مسواک، منہ کو پاک صاف کرنے والی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔
➌ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہےکہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کام کرنے ہی سے اس کی رضامندی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا مسواک کرتے وقت یہی نیت اور ارادہ ہو کہ اس سے ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔ اطباء اور ڈاکٹر حضرات نے بھی اس کے بہت سے فائدے ذکر کیے ہیں۔
➍ مسواک کرنے سے منہ اور حلق کی آلائشیں بکثرت زائل اور ختم ہو جاتی ہیں۔ مسواک صرف دانتوں ہی تک محدود نہ رکھی جائے بلکہ زبان اور حلق کے قریب تک کی جائے، خصوصاً صبح سو کر اٹھنے پر اسی طرح کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سو کر بیدار ہوتے تو مسواک کرتے، اور اس میں مبالغہ کرتے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے عَا عاَ، اُع اُع، اور اہ اہ کی آواز یں نکلتیں۔
➎ ہمارے پیش نظر یہ بات ہونی چائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسواک کا اہتمام و التزام کیا ہے، نیز امت کو بھی اسی قدر تاکید فرمائی ہےاور اگر امت پر مشقت اور بارگراں کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر وضو اور ہر نماز کے وقت ضرور ی قرار دیتے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ کی ذرا سی بو کو بھی پسند نہ کرتے تھے اسی لیے سو کر اٹھتے تو فوراً مسواک کرتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 57