عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تم لوگ ان پانچوں نمازوں کی پابندی کرو جہاں ان کی اذان دی جائے، کیونکہ یہ ہدایت کی راہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے اور راستے مقرر کر دئیے ہیں، اور ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ نماز باجماعت سے وہی غیر حاضر رہتا تھا جو کھلا ہوا منافق ہوتا تھا، اور ہم یہ بھی دیکھتے تھے کہ آدمی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا، یہاں تک کہ اس آدمی کو صف میں لا کر کھڑا کر دیا جاتا تھا، تم میں سے ایسا کوئی شخص نہیں ہے، جس کی مسجد اس کے گھر میں نہ ہو، لیکن اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہے اور مسجدوں میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا، تو تم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ترک کر دیا اور اگر تم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ترک کر دیا تو کافروں جیسا کام کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 550]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 44 (654) بلفظ: ’’ضللتم‘‘، سنن النسائی/الإمامة 50 (850)، (تحفة الأشراف: 9502)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات 14 (781)، مسند احمد (1/382، 414) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح م بلفظ لضللتم وهو المحفوظ
الله شرع لنبيكم سنن الهدى وإنهن من سنن الهدى ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم وما من رجل يتطهر فيحسن الطهور ثم يعمد إلى مسجد من هذه المساجد إلا كتب الله له بكل خطوة يخ
حافظوا على هؤلاء الصلوات الخمس حيث ينادى بهن فإنهن من سنن الهدى وإن الله شرع لنبيه سنن الهدى ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق بين النفاق ولقد رأيتنا وإن الرجل ليهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف وما منكم من أحد إلا وله مسجد في بيته ولو صليتم في بيوتكم
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 550
550۔ اردو حاشیہ: ➊ جماعت سے پیچھے رہنا منافقین کی علامات سے بتایا گیا ہے اور یہ اس کے کبیرہ گناہ ہونے سے بھی بڑھ کر ہے۔ ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے اعراض کا نتیجہ بالآخر کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ «أعاذنا الله منه»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 550
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1488
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جس انسان کو یہ بات پسند ہو کہ کل قیامت کے دن، اس کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات مسلمان ہونے کی صورت میں ہو، وہ ان نمازوں کی پابندی (اہتمام) ان جگہوں میں کرے جہاں ان کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یعنی نماز باجماعت ادا کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم ﷺ کے لیے ہدایت کے طریقے مقرر کر دیئے ہیں اور نمازوں کا اہتمام ہدایت کے طریقوں میں سے ہے، یعنی ہدایت کی راہ کا عمل یہی ہے اور اگر تم نماز گھروں میں پڑھو گے جیساکہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1488]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد زریں میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جماعت کا اہتمام کرتے تھے کوئی بھی صحیح مسلمان جماعت سے پیچھے رہنے کا تصور نہیں کرتا تھا حتی کہ بیمار ہونے کی صورت میں اگر انسان دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد پہنچ سکتا تھا تو وہ اس کا بھی انتظام کرتے تھے اور بیماری کو بہانہ بنا کر شدت میں بھی جماعت سے پیچھے نہیں رہتے تھے صرف ایسے لوگ ہی پیچھے رہتے تھے جن کا نفاق معروف و مشہور تھا یا وہ ایسے بیمار ہوتے کہ دو آدمیوں کے سہارے پر چل کر بھی نہیں آ سکتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نابینا ہونے کے باوجود جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ (بقول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت کا اہتمام کرنا مسلمان کی علامت و شناخت ہے) اور ہدایت کا راستہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل ہے جماعت کو نظر انداز کرنا ہدایت اور نبی کے راستہ کو چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ (3) جماعت کی حاضری کی خاطر مسجد میں جانے والے کو ہر قدم کے بدلہ میں ایک نیکی ملتی ہے ایک برائی مٹتی ہے اور اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور جماعت سے پیچھے رہنے والا ان تینوں خیرات و برکات سے محروم رہتا ہے۔ (4) جماعت سے پیچھے رہنا منافق کی علامت ہے اور ہر ایک مسلمان کو ہر حالت میں اس دھبہ سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر ایک نابینے آدمی کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے تو آنکھوں والا کس طرح گھر میں نماز پڑھ سکتا ہے۔