الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
أبواب السلام
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
157. باب فِي قُبْلَةِ الرَّجُلِ وَلَدَهُ
157. باب: آدمی اپنے بچے کا بوسہ لے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 5218
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ," أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ , أَبْصَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُقَبِّلُ حُسَيْنًا , فَقَالَ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ , مَا فَعَلْتُ هَذَا بِوَاحِدٍ مِنْهُمْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حسین (حسین بن علی رضی اللہ عنہما) کو بوسہ لیتے دیکھا تو کہنے لگے: میرے دس لڑکے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی ایسا نہیں کیا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی پر رحم نہیں کیا تو اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا (پیار و شفقت رحم ہی تو ہے)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5218]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الفضائل 15 (2318)، سنن الترمذی/البر والصلة 12 (1911)، (تحفة الأشراف: 15146)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 17 (5993)، مسند احمد (2/228، 241، 269، 513) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5997) صحيح مسلم (2118)

   صحيح البخاريمن لا يرحم لا يرحم
   صحيح مسلممن لا يرحم لا يرحم
   جامع الترمذيمن لا يرحم لا يرحم
   سنن أبي داودمن لا يرحم لا يرحم
   مسندالحميديأنه لا يرحم من لا يرحم

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5218 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5218  
فوائد ومسائل:
1- اپنے بچوں کو بوسہ دینا فطری محبت وشفقت کااظہار ہوتا ہے، باپ کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیٹی کو بوسہ دے جیسے کہ اور کی حدیث میں گزرا ہے، مگر بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اس سے کتراتے ہیں جو بلاشبہ غیر فطری ہے۔

2: اللہ کی مخلوق پر رحم کرنا اللہ عزوجل کی رحمت کا باعث ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5218   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1911  
´بچوں سے پیار محبت کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا بوسہ لے رہے تھے، اقرع نے کہا: میرے دس لڑکے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کا بھی بوسہ نہیں لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1911]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یعنی جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1911   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1137  
1137- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اقرع بن حابس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بوسہ د یتے ہوئے دیکھا، تو بولا: میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی بوسہ نہیں دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیا جاتا۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1137]
فائدہ:
اس حدیث میں سخت دل انسان کے لیے نصیحت ہے جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، بلکہ ان کو بوسہ بھی دیتے تھے، سبحان اللہ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقیقی اولاد، نواسوں، پوتوں، بھانجوں اور بھتیجوں، جب وہ چھوٹے ہوں، کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ ان سے محبت کی علامت ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1135   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5997  
5997. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن بن علی ؓ کا بوسہ لیا جبکہ آپ کے پاس حضرت قرع بن حابس تمیمی ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے حضرت اقرع ؓ نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں میں نے ان میں کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا پھر فرمایا: جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5997]
حدیث حاشیہ:
مزید تشریح حدیث ذیل میں آ رہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5997