قبیلہ عنزہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ اس نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے جب وہ شام سے واپس لائے گئے کہا: میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پوچھنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا: اگر راز کی بات نہ ہوئی تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا، میں نے کہا: وہ راز کی بات نہیں ہے (پوچھنا یہ ہے) کہ جب آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے تو کیا وہ آپ سے مصافحہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: میری تو جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے مصافحہ ہی فرمایا، اور ایک دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا، میں گھر پر موجود نہ تھا، پھر جب میں آیا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا تھا تو میں آپ کے پاس آیا اس وقت آپ اپنی چارپائی پر تشریف فرما تھے، تو آپ نے مجھے چمٹا لیا، یہ بہت اچھا اور بہت عمدہ (طریقہ) ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5214]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12007)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/163، 167) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أيوب بن بشير بن كعب مستور (تق: 604) ورجل من عنزة مجهول كما قال المنذري (عون المعبود 522/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 180
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5214
فوائد ومسائل: اس روایت سے معانقے کا اثبات نہیں ہوتا، کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے، اسی طرح ایک روایت سنن ترمذی میں ہے کہ جب حضرت حارثہ رضی اللہ مدینہ آئے اور آکر رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے ملے، تو رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ فرمایا اور انہیں بوسہ دیا، یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ بظاہر ہر کوئی صحیح مرفوع حدیث اس سلسلے میں ثابت نہیں، البتہ حضرت انس رضی اللہ کا یہ اثر صحیح سند سے منقول ہے جس میں انہوں نے صحابہ کا یہ عمل بیان کیا ہے کہ وہ آپس میں ملتے تھے تو مصافحہ کرتے تھے اور جب وہ سفر سے آتے تو باہم معانقہ کرتے (بغل گیر ہوتے۔ )
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5214