نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو سنا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اونچی آواز میں بول رہی ہیں، تو وہ جب اندر آئے تو انہوں نے انہیں طمانچہ مارنے کے لیے پکڑا اور بولے: سنو! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند کرتی ہو، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں روکنے لگے اور ابوبکر غصے میں باہر نکل گئے، تو جب ابوبکر باہر چلے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھا تو نے میں نے تجھے اس شخص سے کیسے بچایا“ پھر ابوبکر کچھ دنوں تک رکے رہے (یعنی ان کے گھر نہیں گئے) اس کے بعد ایک بار پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو ان دونوں کو پایا کہ دونوں میں صلح ہو گئی ہے، تو وہ دونوں سے بولے: آپ لوگ مجھے اپنی صلح میں بھی شامل کر لیجئے جس طرح مجھے اپنی لڑائی میں شامل کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے شریک کیا، ہم نے شریک کیا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4999]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11637)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/272، 275) (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو إسحاق عنعن وسقط ذكره من السنن الكبري للنسائي (8495) ! وانظر (ص 185) و حديث أحمد (4/ 275 ح 18421) سنده صحيح و ھو مختصر و يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 174
كيف رأيتني أنقذتك من الرجل قال فمكث أبو بكر أياما ثم استأذن على رسول الله فوجدهما قد اصطلحا فقال لهما أدخلاني في سلمكما كما أدخلتماني في حربكما فقال النبي قد فعلنا قد فعلنا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4999
فوائد ومسائل: یہ روایت ضعیف ہے، تاہم رسول اللہﷺ کی اندرون خانہ زندگی خوش طبعی، مزاح اور وسعت قلبی کی حامل تھی، اس میں تکلیف اور درشتی یا خشکی کا کوئی پہلو نہ تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4999