ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی (انگور اور اس کے باغ کو) «كرم» نہ کہے ۱؎، اس لیے کہ «كرم» مسلمان مرد کو کہتے ہیں ۲؎، بلکہ اسے انگور کے باغ کہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4974]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13632)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 101 (6182)، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب 2 (2249)، مسند احمد (2/272، 464، 476) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ «كرم» یعنی انگور سے جو شراب بنائی جاتی ہے اسے لوگ عمدہ اور بہتر سمجھتے ہیں اس لیے انگور کا نام «كرم» رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا تاکہ کبھی بھی شراب کی بہتری خیال میں نہ آئے۔ ۲؎: عرب «رَجُلٌ کَرْمٌ» اور «قَوْمٌ کَرْمٌ» کہتے ہیں «رَجُلٌ کَرِیْمٌ» اور «قَوْمٌ کِرَامٌ» کے معنی میں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح ورواه مسلم (2247)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4974
فوائد ومسائل: شرعی اوردینی غیرت کا تقاضاہے کہ غلط الفاظ مسلمان کی زبان پر جاری نہیں ہونے چاہییں بالخصوص جب رسول اللہﷺ نے ان تفریح فرمادی ہو جیسے درج ذیل باب میں بھی وارد ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4974
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1127
1127- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں معاملہ میرے ہاتھ میں ہے میں رات اور دن کو تبدیل کرتا ہوں۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1127]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زمانے کو گالی دینا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہے، کیونکہ حالات کی سختی اور تنگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، اس میں زمانے کا کوئی کردار نہیں، جب کوئی زمانے اور وقت کو برا کہتا ہے، گویا وہ اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے، ہاں یہ کہنا درست ہے کہ لوگ گندے ہو گئے ہیں، لوگ خبیث ہوگئے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1125
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1130
1130- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”لوگ ”کرم“ کہتے ہیں: حالانکہ کرم بندۂ مومن کا دل ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1130]
فائدہ: اس حدیث میں ذکر ہے کہ مدینہ منورہ میں بعض لوگ انگور کو «عِنَبٌ» کہنے کی بجائے کرم کہتے تھے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کیونکہ کرم تو مومن کے دل کو کہتے ہیں۔ امام خطابی نے بہت اچھی توجیہہ بیان کی ہے کہ اس وقت لوگ انگور سے شراب تیار کرتے تھے، اور انگور کو کرم کہتے تھے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگور کو کرم کہنے سے منع نہ فرماتے تو کوئی وہم میں مبتلا ہو سکتا تھا کہ شراب معزز ہے کیونکہ یہ کرم سے بنتی ہے، اور کرم مؤمن کا دل ہوتا ہے، چونکہ اس کے دل میں ایمان کا نور اور اسلام کی ہدایت ہوتی ہے۔ ابن الابناری نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ شراب کو معزز سمجھتے تھے، اور شراب پی کر خود کو معز ز تصور کرتے تھے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو”کرم“ کہنے سے منع فرما دیا۔ (فتح الباری: 4 / 431)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1128
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6182
6182. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تم انگور کا نام کرم نہ رکھو اور یہ بھی نہ کہو: ہائے کی نامرادی کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6182]
حدیث حاشیہ: عرب لوگ اسے کرم اس لئے کہتے کہ ان کے خیال میں شراب نوشی سے سخاوت اور بزرگی پیدا ہوتی تھی اسی لئے یہ لفظ اس طور پر استعمال کرنا منع قرار پایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6182
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6183
6183. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگ کرم (انگور کو) کہتے ہیں حالانکہ کرم تو صرف مومن کا دل ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6183]
حدیث حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کے دل کے سوا اور کسی چیز مثلاً انگور وغیرہ کو کرم نہ کہنا چاہیے۔ ان حدیثوں کے لانے سے حضرت اما م بخاری کی غرض یہ ہے کہ إنما کا کلمہ عربی میں حصر کے لئے آتا ہے تو جب یہ فرمایا کہ إنما الکرمُ قلبُ المؤمنِ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قلب مومن کے سوا اور کسی چیز کو کرم کہنا درست نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6183
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6182
6182. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تم انگور کا نام کرم نہ رکھو اور یہ بھی نہ کہو: ہائے کی نامرادی کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6182]
حدیث حاشیہ: اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی ناگوار بات یا نازیبا کام کو دیکھ کر بلاوجہ ہی کہہ دیتے ہیں کہ زمانہ برا ہے۔ وقت اچھا نہیں، حالانکہ اس میں وقت اور زمانے کا کیا قصور ہے، جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس لیے زمانے کو برا کہنا گویا اللہ تعالیٰ کو برا کہنا ہے۔ اسی طرح عرب لوگ انگور کو کرم کہتے تھے کہ انگور سے شراب کشید کی جاتی ہے اور شراب نوشی سے ان کے کہنے کے مطابق سخاوت اور بزرگی پیدا ہوتی ہے، اس بنا پر انگور کے لیے اس لفظ کا استعمال منع قرار دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6182
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6183
6183. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگ کرم (انگور کو) کہتے ہیں حالانکہ کرم تو صرف مومن کا دل ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6183]
حدیث حاشیہ: جب اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دیا تو ان ناموں کو بھی حرام کر دیا جن کے سامنے آنے سے شراب نوشی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، مومن آدمی کا نام سابقہ کتب میں کرم ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمام مخلوق پر برتری اور عزت بخشی ہے لیکن تم لوگ دیواروں پر پروان چڑھنے والے انگوروں کو کرم کہتے ہو۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 277/7، رقم: 7087، وفتح الباري: 696/10) اس سے مراد حرمت شراب کی تاکید ہے کہ اس کے تمام ایسے نام حرام کر دیے ہیں جو انسان کو شراب نوشی پر آمادہ کرتے ہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6183