ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابوالحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے، آپ نے انہیں بلایا، اور فرمایا: ”حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟“ انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر راضی ہو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”یہ تو اچھی بات ہے، تو کیا تمہارے کچھ لڑکے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح، مسلم اور عبداللہ میرے بیٹے ہیں“ آپ نے پوچھا: ان میں بڑا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ”شریح“ آپ نے فرمایا: تو تم ”ابوشریح ہو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شریح ہی وہ شخص ہیں جس نے زنجیر توڑی تھی اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تستر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کی شریح نے ہی تستر کا دروازہ توڑا تھا اور وہی نالے کے راستے سے اس میں داخل ہوئے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4955]
الله هو الحكم وإليه الحكم فلم تكنى بابا الحكم فقال إن قومي إذا اختلفوا في شيء أتوني فحكمت بينهم فرضي كلا الفريقين فقال رسول الله ما أحسن هذا فما لك من الولد قال لي شريح ومسلم وعبد الله قال فمن أكبرهم قلت شريح قال فأنت أبو شريح
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5389
´جب کسی کو حکم اور ثالث بنائیں اور وہ فیصلہ کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟` ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا: ”حکم تو اللہ ہے اور حکم کرنا بھی اسی کا کام ہے“، وہ بولے: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہو جاتے ہیں۔ آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5389]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ثالث کا کیا ہوا صحیح اور درست فیصلہ نافذ ہونا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہانی رضی اللہ عنہا کے فعل کی تحسین فرمائی ہے۔ (2) بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھنا مستحب ہے کیونکہ بڑا ہونے کی وجہ سے یہ اس کا حق بنتا ہے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبیح اور برے نام کو بدل دینا مستحب اور پسندیدہ شرعی عمل ہے، نیز یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کی طرف راہ نمائی بھی کرتی ہے کہ ”ابو الحکم“ کنیت رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ عربی میں حکم فیصلہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ابو الحکم سے مراد ہے سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا۔ ظاہر ہے اس میں فخر اور تعلی کا اظہار ہے جسے شریعت مناسب نہیں سمجھتی، اس لیے آپ نے اس کنیت کو حقیقی کنیت سے تبدیل فرما دیا۔ (4)”یہ بہت اچھی بات ہے۔“ عربی جملے کے لفظی معنی ہیں: ”اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔“ مفہوم وہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5389