محمد بن عمرو بن عطا سے روایت ہے کہ زینب بنت ابوسلمہ نے ان سے پوچھا: تم نے اپنی بیٹی کا نام کیا رکھا ہے؟ کہا: میں نے اس کا نام ”برہ“ رکھا ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع کیا ہے، میرا نام پہلے ”برہ“ رکھا گیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خود سے پاکباز نہ بنو، اللہ خوب جانتا ہے، تم میں پاکباز کون ہے، پھر (میرے گھر والوں میں سے) کسی نے پوچھا: تو ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپ نے فرمایا: ”زینب“ رکھ دو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4953]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4953
فوائد ومسائل: 1) اپنے منہ میاں مٹھو بننا یعنی خود ہی اپنی مدح سرائی کرنا بہت برا ہے۔ اور اس میں ایسے نام بھی شامل ہیں جن میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔
2) زینب کے معانی کے معنی میں بیان کیا جاتا ہے کہ موٹے خرگوش یا حسین منظر یا اچھی خوشبو والے درخت کو زینب کہتے ہیں۔ یا بعض نے اے (زین اب) یعنی باپ کے لیے زینت مر کب بتایا ہے۔ (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4953
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5609
محمد بن عمرو بن عطاء بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی بیٹی کا نام بره رکھا تو مجھے حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کے رکھنے سے روکا ہے، میرا نام بره رکھا گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خود اپنا تزکیہ نہ کرو، اللہ تعالیٰ تم میں سے وفاداروں اور نیکوکاروں کو خوب جانتا ہے“ تو میرے ورثاء نے پوچھا، ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اس کا نام زینب رکھو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5609]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے، ناپسندیدہ اور پارسائی پر دلالت کرنے والے ناموں کو بدل دینا چاہیے۔