الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
18. باب فِي الرَّجُلِ يَقُومُ لِلرَّجُلِ مِنْ مَجْلِسِهِ
18. باب: ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو یہ کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4827
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى آلِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ:" جَاءَنَا أَبُو بَكْرَةَ فِي شَهَادَةٍ، فَقَامَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ مَجْلِسِهِ، فَأَبَى أَنْ يَجْلِسَ فِيهِ، وَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ذَا، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمْسَحَ الرَّجُلُ يَدَهُ بِثَوْبِ مَنْ لَمْ يَكْسُهُ".
سعید بن ابوالحسن کہتے ہیں کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ ایک گواہی کے سلسلے میں ہمارے ہاں آئے، تو ان کے لیے ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، تو انہوں نے وہاں بیٹھنے سے انکار کیا، اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ کسی ایسے شخص کے کپڑے سے پونچھے جسے اس نے کپڑا نہ پہنایا ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4827]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11675)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/44، 48) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو عبد اللّٰه مولي آل أبي بردة : مجهول (تق: 8215)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 168

   سنن أبي داودنهى النبي أن يمسح الرجل يده بثوب من لم يكسه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4827 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4827  
فوائد ومسائل:
1) یہ روایت سندَا ضعیف ہے، تاہم اس میں بیان کردہ باتیں دیگر احادیث سے ثابت ہیں۔

2) پہلے سے بیٹھا ہو شخص ہی زیادہ حقدار ہے کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے۔
دیگر احادیث کی روشنی میں اگر اُٹھنے والا دلی خوشی سے ایسا کرے تو مباح بھی ہے، جیسے کہ کتاب الصلوۃ میں گزرا ہے کہ کسی کی عزت کی جگہ پر بیٹھنا جائز نہیں اِلا یہ کہ وہ ازخود اجاز ت دے۔

3) دوسرے کے کپڑے سے بلااجازت ہاتھ پونچھنا کسی طرح روا نہیں کہ یہ دوسرے کے مال میں تصرف ہے سوائے اس کے کہ دوسرا زیرِ تولیت ہو مثلاََ اپنا بیٹا، غلام یا بیوی۔
کیونکہ ان کا کپڑا اور مال ولی کا مال ہی ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4827