انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ننھے انس! جاؤ جہاں میں نے تمہیں حکم دیا ہے“ میں نے عرض کیا: ٹھیک ہے، میں جا رہا ہوں، اللہ کے رسول، انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے سات سال یا نو سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کبھی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں نہیں کیا؟۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4773]
اكتم سري تكن مؤمنا ، فما أخبرت بسره أحدا ، وإن كانت أمي ، وأزواج النبى صلى الله عليه وآله وسلم يسألنني أن أخبرهن بسره فلا أخبرهن ولا أخبر بسره أحدا أبدا ، ثم قال : يا بني أسبغ الوضوء يزد فى عمرك ويحبك حافظاك ، ثم قال : يا بني ، إن استطعت أن لا تبيت إلا على وضوء فافعل ، فإنه من أتاه الموت وهو على وضوء أعطي الشهادة ، ثم قال : يا بني ، إن استطعت أن لا تزال تصلي فافعل فإن الملائكة لا تزال تصلي عليك ما دمت تصلي ، ثم قال : يا بني ، إياك والالتفات فى الصلاة ، فإن الالتفات فى الصلاة هلكة ، فإن كان لا بد ففي التطوع لا فى الفريضة ، ثم قال لي : يا بني ، إذا ركعت فضع كفيك على ركبتيك ، وافرج بين أصابعك ، وارفع يديك على جنبيك ، فإذا رفعت رأسك من الركوع فكن لكل عضو موضعه ، فإن الله لا ينظر يوم القيامة إلى من لا يقيم صلبه فى ركوعه وسجوده ، ثم قال : يا بني ، إذا سجدت فلا تنقر كما ينقر الديك ، ولا تقع كما يقعي الكلب ، ولا تفترش ذراعيك افتراش السبع ، وافرش ظهر قدميك الأرض ، وضع إليتيك على عقبيك فإن ذلك أيسر عليك يوم القيامة فى حسابك ، ثم قال : يا بني بالغ فى الغسل من الجنابة تخرج من مغتسلك ليس عليك ذنب ولا خطيئة ، قلت : بأبي وأمي ، ما المبالغة ؟ ، قال : تبل أصول الشعر ، وتنقي البشرة ، ثم قال لي : يا بني ، إن إذا قدرت أن تجعل من صلواتك فى بيتك شيئا فافعل فإنه يكثر خير بيتك ، ثم قال لي : يا بني ، إذا دخلت على أهلك فسلم يكن بركة عليك وعلى أهل بيتك ، ثم قال : يا بني ، إذا خرجت من بيتك فلا يقعن بصرك على أحد من أهل القبلة ، إلا سلمت عليه ترجع وقد زيد فى حسناتك ، ثم قال لي : يا بني ، إن قدرت أن تمسي وتصبح وليس فى قلبك غش لأحد فافعل ، ثم قال لي : يا بني ، إذا خرجت من أهلك فلا يقعن بصرك على أحد من أهل القبلة ، إلا ظننت أن له الفضل عليك ، ثم قال لي : يا بني ، إن حفظت وصيتي فلا يكونن شيء أحب إليك من الموت ، ثم قال لي : يا بني إن ذلك من سنتي ومن أحيا سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي فى الجنة
دعوه ، فإنه لا يكون إلا ما أراد الله ، وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم انتقم لنفسه من شيء قط إلا أن تنتهك لله حرمة ، فإذا انتهكت لله حرمة ، كان أشد الناس غضبا لله عز وجل ، وما عرض عليه أمران قط إلا اختار أيسرهما ما لم يكن لله فيه سخط ، فإن كان لله فيه سخط كان أبعد الناس منه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4773
فوائد ومسائل: رسول اللہﷺ حلم اور اخلاقِ حسنہ کی شاندار تصویر تھے اور بچوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے۔ نیز حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی کبھی نبی اکرمﷺ کو ایسا موقع نہیں دیا تھا جو آپ کے ذوق اور مزاج کے لیئے گرانی کا باعث بنتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4773
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4774
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور تحمل و بردباری کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، میں ایک کمسن بچہ تھا، میرا ہر کام اس طرح نہ ہوتا تھا جیسے میرے آقا کی مرضی ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھ سے اف تک نہیں کہا اور نہ مجھ سے یہ کہا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4774]
فوائد ومسائل: بعض نوخیز بچے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو ان کے کاموں میں حوصلہ اور اعتماد دیا جائے تو اس طرح سے انکی عملی زندگی بڑ ی کامیاب رہتی ہے۔ تاہم سارے بچے اس طرح ذہین ہی ہوتے ہیں نہ زیادہ سمجھدار ہی انکو آداب سکھانے کے لیئے کچھ نہ کچھ سرزنش بھی کرنی پڑتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ اول الذکر قسم کے بچے تھے وہ بچہ ہونے کے با وجود رسول اللہﷺ کو شکائیت کا مو قع نہی دیتے تھے اور نبی اکرمﷺ تو تھے سراپا شفقت اور مجسمِ رحمت۔ آپ نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے ہمیشہ شفقت و پیار والا معاملہ ہی کیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4774
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6011
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اللہ کی قسم! آپ نے کبھی مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا اور نہ نہ مجھے کسی چیز کے بارے میں کہا تو نے اس طرح کیوں کیا اور تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ ابو ربیع اضافہ کرتے ہیں، جو کام خادم نہیں کرتا اور کلمہ ”اللہ کی قسم“ کا ذکر نہیں کیا- [صحيح مسلم، حديث نمبر:6011]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ انتہائی حلیم اور بردبار تھے، دس سال کا ایک نوخیز لڑکا آپ کا خادم تھا اور وہ اپنے لڑکپن کی بنا پر یقینا ایسا کام کرتا ہو گا، جو آپ کے شایان شان نہیں ہو گا، کبھی اس میں سستی اور غفلت کا مظاہرہ بھی کرتا ہو گا، جیسا کہ آنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے، لیکن آپ نے کبھی اکتاہٹ اور بیزاری کا اظہار نہیں فرمایا اور نہ ہی سرزنش و توبیخ سے کام لیا بلکہ اس کی دل داری فرمائی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6011
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6013
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کر چل پڑے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! انس ایک سمجھدار لڑکا ہے، آپ کی خدمت کرے گا سو میں نے آپﷺ کی سفر اور حضر میں خدمت کی، اللہ کی قسم! جو کام میں نے کیا، آپﷺ نے مجھے یہ کہا، یہ کام تو نے اس طرح کیوں کیا، اور جو کام میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6013]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے لخت جگر ہیں اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی تھی اور حضرت ام سلیم کے مشورہ ہی سے حضرت انس کو آپ کی خدمت کے لیے لے گئے تھے، اس لیے بعض جگہ لے جانے کی نسبت حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف کی گئی ہے، نیز جنگ خیبر کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ سے کسی ایسے خادم کا مطالبہ کیا، جو سفر میں آپ کی خدمت کرے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے بھی، حضرت انس ہی کو پیش کیا، اس لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے آپ کی سفر و حضر میں خدمت کی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6013
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6014
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوسال خدمت کی تو میں نہیں جانتا، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے کبھی فرمایا ہو، یہ کام تونے کیوں کیا؟اور نہ آپﷺ نے میرے کام پر نکتہ چینی فرمائی ((نہ کسی کام میں عیب نکالا)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6014]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نو سال کچھ ماہ گزارے تھے، اس لیے کبھی کسر کو پورا کرتے ہوئے دس سال کہہ دیا اور کبھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے 9 سال کہہ لیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6014
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2768
2768. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کا کوئی خدمت گزار نہیں تھا۔ حضرت ابوطلحہ ؓ میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یقینا!انس ایک زیرک بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سفر و حضر میں آپ کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا۔ آپ نے مجھے کسی کام کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ کبھی نہ فرمایا: تم نے اس طرح کیوں کیا؟ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جو میں نہ کر سکا، آپ نے کبھی سر زنش نہ کی تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2768]
حدیث حاشیہ: حضرت ابو طلحہ نے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے سوتیلے باپ تھے‘ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کردیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ کے لئے نکل رہے تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ قابل صد مبارک باد ہیںکہ ان کو سفر و حضر میں پورے دس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع حاصل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا بہت قریب سے انہوں نے معائنہ کیا اور قیامت تک کے لئے وہ خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے دنیا میں یادگار رہ گئے (رضی اللہ عنہ وارضاہ) یہ ابو طلحہ زید بن سہل انصاری شوہر ام سلیم (والدہ انس) کے ہیں اوراس حدیث کے جملہ راوی بصری ہیں جس طرح کہ قسطلانی نے بیان کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2768
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6038
6038. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں دس سال تک نبی ﷺ کی خدمت میں رہا ہوں لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6038]
حدیث حاشیہ: دس سال کی مدت کافی طویل ہوتی ہے مگر اس ساری مدت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی نہیں ڈانٹا نہ دھمکایا نہ کبھی آپ نے ان سے سخت کلامی فرمائی۔ یہ آپ کے حسن اخلاق کی دلیل ہے اور حقیقت ہے کہ آپ سے زیادہ دنیا میں کوئی شخص نرم دل خوش اخلاق پیدا نہیں ہوا۔ اللہ پاک اس پیارے رسول پر ہزارہا ہزار درود وسلام نازل فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6038
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2768
2768. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کا کوئی خدمت گزار نہیں تھا۔ حضرت ابوطلحہ ؓ میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یقینا!انس ایک زیرک بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سفر و حضر میں آپ کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا۔ آپ نے مجھے کسی کام کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ کبھی نہ فرمایا: تم نے اس طرح کیوں کیا؟ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جو میں نہ کر سکا، آپ نے کبھی سر زنش نہ کی تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2768]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب یتیم میں خدمت کرنے کی صلاحیت ہو تو اسے سفر میں ساتھ لے جانا جائز ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ حضرت انس ؓ کے سوتیلے باپ تھے کیونکہ ان کی والدہ ام سلیم ؓ سے انہوں نے نکاح کر لیا تھا۔ حضرت انس ؓ کی عمر دس سال تھی جب انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا، پھر انہیں دس سال تک سفر و حضر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا موقع ملا۔ انہوں نے بہت قریب سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا مطالعہ کیا اور قیامت تک وہ رسول اللہ ﷺ کے خدمت گزار کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ جب حضرت انس ؓ فوت ہوئے تو ان کی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔ (2) حضرت انس ؓ کے خادم بننے کی تفصیل اس طرح ہے کہ ان کی والدہ ام سلیم نے انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے پیش کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1982) پھر حضرت ابو طلحہ ؓ نے ان کی اجازت سے غزوۂ خیبر کے لیے جاتے وقت دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 2893)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2768
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6038
6038. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں دس سال تک نبی ﷺ کی خدمت میں رہا ہوں لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6038]
حدیث حاشیہ: (1) دس سال کی مدت کافی طویل ہوتی ہے، مگر اس مدت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کبھی نہیں ڈانٹا اور نہ کبھی آپ نے سخت کلامی کی۔ یہ آپ کے حسن اخلاق کی واضح دلیل ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی شخص نرم دل، خندہ جبیں اور خوش کلام پیدا نہیں ہوا۔ (2) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی عظمت ظاہر ہوتی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم دینی معاملات میں کبھی مداہنت نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ معاملات امر بالمعروف اور نہی اعن المنکر کی قبیل سے ہیں۔ بہرحال آپ اپنے خادموں سے حسن سلوک سے پیش آتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6038
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6911
6911. حضرت انس ؓ سے ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدنیہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفر حضر میں آپ ﷺ کی خدمت گزاری کا فریضہ ادا کیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے کسی کے متعلق جو میں نے کیا یہ نہیں کہا: تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی کام کے متعلق جو میں نے کیا، یہ کہا تو نے وہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6911]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی کفالت میں تھے۔ انھوں نے اس بات کو سعادت خیال کیا کہ ان کا بیٹا رات دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرے کیونکہ اس میں دنیا وآخرت کی بھلائیاں تھیں۔ اس جذبے سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور اس وقت ان کے ہمراہ شوہر نامدار حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، اس لیے واقعے کی نسبت کبھی والدہ اور کبھی ان کے شوہر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی۔ (2) ایک دوسرا واقعہ بھی اس طرح کا منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے خیبر جاتے ہوئے فرمایا: ”میرے لیے کوئی بچہ تلاش کرو جو میری دوران سفر میں خدمت کرے تو انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔ “(فتح الباري: 316/12) بہرحال غلاموں اور بچوں سے خدمت لی جا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ مدرسے کے اساتذہ کو بچوں سے خدمت لینے سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ فتنے وفساد کا دور ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6911