مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو قتل کر دیا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ رویا، نہ کھایا، نہ پیا، اور نہ ہی چلایا، (اس نے یہ بات مقفّٰی عبارت میں کہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دیہاتیوں کی طرح مقفّی و مسجّع عبارت بولتے ہو؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غرہ (لونڈی یا غلام) کی دیت کا فیصلہ کیا، اور اسے عورت کے عاقلہ (وارثین) کے ذمہ ٹھہرایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4568]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4825
´عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔` مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی (کھونٹی) سے مارا، جس سے وہ مر گئی، وہ حمل سے تھی، چنانچہ معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے مارنے والی عورت کے عصبہ پر دیت کا اور جنین (پیٹ کے بچہ) کے بدلے ایک «غرہ»(غلام یا ایک لونڈی) دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے خاندان والے بولے: کیا اس کی بھی دیت ادا کی جائے گی، جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ چیخا اور نہ چلایا۔ ایسا خون تو لغو ہے۔ نبی اکرم صل [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4825]
اردو حاشہ: (1)”ایسا بچہ“ یعنی جو زندہ پیدا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا۔ (2)”اعرابیوں جیسی“ اعرابی لوگ فصیح وبلیغ زبان بولتے تھے اور اعلیٰ درجے کے شاعر ہوتے تھے، نیز وہ مسجع کلام کیا کرتے تھے۔ (3)”تک بندی“ یعنی مسجع کلام جس کے جملے ہم آہنگ ہوں۔ ہر جملے کے آخر میں ایک جیسے الفاظ آئیں جیسے اشعار میں ہوتا ہے مگر وزن ایک نہیں ہوتا۔ (4) اس روایت میں ہے کہ اس عورت نے خیمے کی چوب، یعنی لکڑی ماری تھی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ اس نے پتھر مارا تھا۔ ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ ممکن ہے اس نے دونوں چیزیں ماری ہوں، کسی راوی نے ایک چیز بیان کر دی کسی نے دوسری۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4825
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4830
´قتل شبہ عمد کی تشریح اور اس بات کا بیان کہ بچے کی اور شبہ عمد کی دیت کس پر ہو گی اور اس بابت مغیرہ رضی الله عنہ کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا، جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا، عرض کیا گیا: جس نے نہ کھایا، نہ پیا، جو نہ چیخا نہ چلایا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ تو دیہاتیوں کی سی سجع ہے؟“ پھر آپ نے اس میں ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4830]
اردو حاشہ: مذکورہ حدیث کو بہت سے محدثین نے مرفوع متصل بیان کیا ہے لیکن امام اعمش نے یہ روایت ابراہیم سے مرسل بیان کی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے: الأعمش عن ابراھیم، قال ضَربت امراة…“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4830
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2633
´دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) پر ہے ورنہ بیت المال سے دی جائے گی۔` مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”دیت عاقلہ (قاتل اور اس کے خاندان والوں) کے ذمہ ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2633]
اردو حاشہ: 1۔ عاقلہ سے مراد رشتے دار ہیں جو باپ کی طرف سے ہوتے ہیں، یعنی دوھیالی رشتے دار۔ 2۔ عاقلہ میں پہلے بھائی اور بھتیجے وغیرہ آتے ہیں، پھر چچازاد بھائیوں کی اولاد، یعنی ایک دادے کے پوتے، پھر دادے کے بھائیوں کی اولاد وغیرہ۔ 3۔ دیت کو عاقلہ کے ذمے کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وہ مل جل کر دیت ادا کرسکتے ہیں، کسی ایک یا چند افراد پر ناقابل برداشت بوجھ نہیں پڑتا۔ 4۔ دیت کو برادری سے وصول کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ لڑائی جھگڑے میں یہ لوگ عموماً ساتھ دیتے ہیں۔ اور کوئی شخص اگر قتل کرتا ہے اسے یہ خیال ہوتا ہے کہ میری مدد کرنے کے لیے میری برادری موجو د ہے۔ جب ان پر دیت کی ذمے برادری آئے گی تو وہ مجرم کو جرم کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کریں گے، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2633
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1411
´حمل (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی دیت کا بیان۔` مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تو اس کا حمل ساقط ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حمل کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: زید بن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی، اور سفیان ثوری نے منصور سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1411]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ حدیث قتل کی دوسری قسم ”شبہ عمد“ کے سلسلہ میں اصل ہے۔
شبہ عمد: وہ قتل ہے جس میں قتل کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال ہوتاہے جن سے عموماً قتل واقع نہیں ہوتا جیسے: لاٹھی اور اسی جیسی دوسری چیزیں، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے، یہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس حاملہ اونٹیناں ہوں گی، اس دیت کی ذمہ داری قاتل کے عصبہ پر ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باپ کی جہت سے قاتل کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہیں، خواہ اس کے وارثین میں سے نہ ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1411